عنوان: | میرے پیارے بچوں! ان بیماریوں سے بچتے رہنا۔! |
---|---|
تحریر: | بنت اسلم برکاتی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
فاطمہ بہت ہی نیک اور با عمل خاتون ہے۔ وہ ہر وقت رب تبارک و تعالیٰ کے احکام اور حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ کے فرامین مبارکہ کو سیکھنے، سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ وہ جو بھی سیکھتی ہے، پہلے خود عمل کرتی ہے اور اپنے بچوں کو بھی دین کی باتیں بتاتی ہے اور ان کو عمل کی ترغیب بھی دلاتی ہے۔ بچوں کے نیک کام کرنے پر، تحائف دے کر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی رہتی ہے۔
آج کے درس قرآن میں اس نے باطنی بیماریوں کے بارے میں جانا۔ استانی صاحبہ نے باطنی بیماریوں کی مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے احیاء العلوم کتاب کی تیسری جلد کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دلائی۔ تو اس نے مطالعہ شروع کیا۔ جیسے جیسے وہ ان بیماریوں کے بارے میں پڑھتی جاتی، خود کو اور اپنے بچوں کو ان سے بچانے کی نیتیں کرتی۔ جب اس کا مطالعہ مکمل ہوا، تو اس نے اپنے بچوں کو ان بیماریوں کی جانکاری دینی شروع کی۔
اس نے اپنے سارے بچوں کو اپنے پاس بلایا، ان کو پیار کیا اور محبت بھرے انداز میں کہا: میرے پیارے بچوں! آج میں تم سب کو ایسی بیماریوں کے بارے میں بتانے والی ہوں، جو بظاہر نظر تو نہیں آتیں؛ لیکن یہ جسمانی امراض سے بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ بچوں نے بہت ہی حیرت سے سوال کیا: امی! ایسی کون سی بیماریاں ہیں جو نظر نہیں ہیں؟
فاطمہ نے کہا: خوب غور سے سنو! اور ان بیماریوں سے بچنے کی نیت بھی کر لو، تاکہ برکتیں حاصل ہوں۔ جس طرح جسمانی بیماریاں ہمارے جسم کو کمزور کر دیتی ہیں، اسی طرح دل کی بھی بیماریاں ہوتی ہیں اور وہ ہمارے دل کو میلا کر دیتی ہیں۔ میرے پیارے بچوں! ہمیشہ ان بیماریوں سے بچتے رہنا۔
سب سے پہلے میں تمہیں حسد کے بارے میں بتاتی ہوں۔ حسد کو آسان زبان میں کہوں تو کسی کی نعمت، دولت، حسن یا علم کو دیکھ کر اس کے چھن جانے کی چاہت کرنا۔ جیسے کہ تم سب میں عظمیٰ بہت خوبصورت ہے، تو اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تم سب دل ہی دل میں اس کی خوبصورتی چھن جانے کی تمنا کرو۔
اب اس سے بچیں کیسے؟ تو سب سے پہلے تم سب کو یہ غور کرنا ہے کہ اگر عظمیٰ خوبصورت ہے، تو اس کو خوبصورتی کس نے عطا کی؟ بتاؤ سبھی؟ سبھی بچوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے۔ فاطمہ بولی: جب عطا کرنے والا اللہ ہے، تو اس کی رضا میں راضی رہو اور اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ادا کرو۔ اور اگر کبھی حسد پیدا ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ سے اس بیماری سے بچنے کی دعا کرو۔
دوسری بیماری ہے ریاکاری یعنی کہ دکھاوا۔ اچھا بتاؤ! ہم سبھی کس کی عبادت کرتے ہیں؟ سارے بچوں نے ایک ساتھ کہا: اللہ تعالیٰ کی۔ فاطمہ نے کہا: کسی بھی نیک کام کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ لوگوں کو دکھانے کے لیے کرنا، ریاکاری کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر علی بہت اچھی نعت پاک پڑھ لیتا ہے۔ اگر وہ اپنے دوستوں کے سامنے اس نیت سے نعت پاک پڑھے کہ اس کی تعریف ہو اور لوگ اس کی واہ واہی کریں، تو اس نے ریاکاری کی۔
ریاکاری سے بچنے کے لیے ہمیشہ یہ بات یاد رکھو کہ ہم جو بھی نیک کام کریں؛ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کریں۔ کیوں کہ ہمارے ہر نیک عمل کا ثواب اللہ تعالیٰ ہی عطا فرمانے والا ہے، نہ کہ لوگ۔ اگر لوگوں کو دکھانے کی نیت سے کسی بھی نیک کام کو کیا، تو اس کا کوئی بھی ثواب نہیں ملے گا۔
تیسری بیماری کا نام ہے بدگمانی یعنی کہ بے غیر کسی ثبوت کے، کسی کے بارے میں برے ہونے کا یقین کرنا۔ جیسے کہ اگر میں عظمیٰ کو ایک ہزار روپے دوں اور وہ تم سب سے یہ بات نہ بتائے کہ امی نے مچھے روپے دیے ہیں۔ اور جب تم سب اس کے پاس روپے دیکھو، تو یہ یقین کر لو کہ عظمیٰ نے پیسے چرائے ہیں۔
اس بیماری کا علاج یہ کہ تم لوگوں کی اچھائیوں پر نظر رکھو۔ اگر کبھی برا خیال آنے بھی لگے تو فوراً رب تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرو کہ یا اللہ! مجھے اچھا گمان رکھنے والا بنا اور برے گمان سے میری حفاظت فرما۔ ان شاءاللہ تعالیٰ! اللہ تعالیٰ کرم فرمائے گا۔
اچھا بچوں! اب بتاؤ کہ کیا ان بیماریوں کے بارے میں کچھ سمجھ آیا؟ سارے بچوں نے کہا: الحمدللہ! جی امی! ہمیں بہت اچھے سے سمجھ آ گیا ہے اور ان شاءاللہ تعالیٰ! ہم ان بری بیماریوں سے بچنے کی پوری کوشش کریں گے۔
فاطمہ نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا اور دعا کی کہ یا اللہ! اپنے فضل و کرم سے ہم سبھی کو روحانی، جسمانی، ذہنی اور قلبی بیماریوں سے محفوظ فرما اور ہر حال میں اپنا شکر ادا کرنے والا بنا۔ آمین یا رب العالمین!