عنوان: | فدایانِ حرمتِ رسول ﷺ |
---|---|
تحریر: | شاہین فاطمہ امجدی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
موت حق ہے، جس سے آج تک کوئی انسان بچ نہیں سکا۔ ہر ذی روح کو ایک نہ ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کس مقصد پر جان دیتے ہیں؟ کس راہ میں اپنی زندگی کا چراغ گل کرتے ہیں؟ اگر مرنا ہی ہے، تو کیوں نہ وہ موت ایسی ہو جو ہمارے رب کو راضی کرے؟ کیوں نہ وہ موت ہو، جو رسولِ پاک ﷺ کی عزت و حرمت کے لیے ہو؟ کیوں نہ ہماری جان ناموسِ رسالت ﷺ پر قربان ہو جائے، تاکہ زندگی بھی کامیاب ہو اور موت بھی باعثِ شرف!
اور تحفظِ ناموسِ رسالت پر جان قربان کرنا ایک مسلمان کی غیرتِ ایمانی کا سب سے اعلیٰ مظہر ہے۔ عشقِ رسول ﷺ کا تقاضا صرف زبان سے محبت کا اظہار نہیں بلکہ وقت آنے پر اپنے مال، جان، عزت، آبرو ہر چیز کو نبی کریم ﷺ کی حرمت پر فدا کر دینا ہے۔ اسی کے متعلق اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ (الاحزاب، ۶)
ترجمہ کنزالایمان:
یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے
اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ°(الحجرت،۲)
ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّاکر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ یہ آیت نبی پاک ﷺ کے ادب اور احترام کی اعلیٰ ترین تعلیم دیتی ہے اگر آواز بلند کرنا منع ہے تو حرمت پر حملہ کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟
ناموسِ رسالت ﷺ کا تحفظ محض کوئی معمولی فریضہ نہیں، بلکہ یہ ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ ایک سچا عاشقِ رسول ﷺ اپنی جان، مال، وقت اور تمام تر توانائیاں حضور ﷺ کی حرمت پر نچھاور کرنے کو سعادت سمجھتا ہے۔ تو ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم اُن عاشقوں کی طرح آگے بڑھیں، آواز بلند کریں، قلم اٹھائیں، کردار سے دفاع کریں، اور اگر وقت آئے تو اپنی جان بھی نچھاور کرنے سے نہ ہچکچائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم مرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، مگر ایک مؤمن کی حیات بھی مقصد سے ہے اور موت بھی۔ جو موت ناموسِ رسالت ﷺ پر آئے، وہ شہادت ہے، وہ جنت کی کنجی ہے، وہ اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے، وہ فخر ہے، وہ اصل کامیابی ہے۔
آج کے دور میں جب کفری طاقتیں، میڈیا اور گستاخ زبانیں نبی کریم ﷺ کی شانِ اقدس پر حملے کر رہی ہیں۔ جن کی وعید قرآن مجید میں ذکر ہے۔
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ° (التوبہ،۶۱)
ترجمۂ کنز الایمان:
اور وہ جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
تاریخ اسلام گواہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے نہ صرف اپنی زندگیاں بلکہ اپنے اہل و عیال، اپنے آرام و سکون سب کچھ آقائے دو جہاں ﷺ کی عزت پر قربان کر دیا۔ چناں چہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے احد کے دن ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کی حفاظت اپنی ڈھال سے کی بخاری شریف میں یہ واقعہ کچھ یوں ذکر ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: انْهَزَمَ النَّاسُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَأَبُو طَلْحَةَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ ﷺ مُجَوِّبٌ عَلَيْهِ بِحَجْفَةٍ لَهُ، وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ رَجُلًا رَامِيًا شَدِيدَ الْقَوْسِ، وَكَانَ يَكْسِرُ يَوْمَئِذٍ قَوْسَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، وَكَانَ الرَّجُلُ يَمُرُّ مَعَهُ بِالْجُعْبَةِ فَيَقُولُ: انْثُرْهَا لِأَبِي طَلْحَةَ. قَالَ: وَيُشْرِفُ النَّبِيُّ ﷺ، فَيَنْظُرُ إِلَى الْقَوْمِ، فَيَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، لَا تُشْرِفْ، يُصِيبُكَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ الْقَوْمِ، نَحْرِي دُونَ نَحْرِكَ (صحیح بخاری،کتاب المغازی،۴۰۴۶)
ترجمہ: حضرت انس فرماتے ہیں: کہ احد کا دن آیا تو صحابۂ کرام شکت خوردہ حضورﷺ کو چھوڑ کر بھاگے اور ابو طلحہ حضورﷺ کے سامنے تھے اور حضور کی اپنی ڈھال سے حفاظت کرتے تھے اور ابو طلحہ اچھے تیر انداز بھی تھے اور بہت سخت تیر چلاتے بھی تھے۔
اور کمان کے چلے کو بہت سخت کھینچتے تھے، اور اس روز انہوں نے دو یا تیں کمانیں توڑ ڈالیں۔ کوئی صحابی جب گزرتے حضورﷺ کے پاس سے جس کے پاس تیروں کا گچھا ہوتا تو حضور ﷺارشاد فرماتے: ابو طلحہ کے لیے ڈھیر کرو اور حضور جھانکتے ان کے پیچھے سے اور قوم کو دیکھتے تو ابو طلحہ عرض کرتے کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ جھانکیے نہیں کہیں کوئی تیر دشمنوں کا آپ کو نہ لگ جائے میرا سینہ آپ کے سینے کی حفاظت کے لیے ہے۔
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ نے جان ہتھیلی پر رکھ کر نبی پاک ﷺ کی حفاظت کی،اپنے جسم کو رسول اللہ ﷺ کے لیے ڈھال بنا رہے تھے، دشمن کی تیروں کی بوچھاڑ کے باوجود، ایک قدم پیچھے نہ ہٹے۔ نبی کریم ﷺ صرف ایک روحانی پیشوا ہی نہیں بلکہ اُمّت کے مرکز تھے، صحابہ نے آپ کی حفاظت کو سب کچھ سمجھا۔
آج کے نوجوانوں کو بھی اپنے دین، عقیدہ، علما، اور سنی قیادت کی حفاظت کا جذبہ اپنانا چاہیے۔ محض نعرے کافی نہیں، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے میرا سینہ آپ کے سینے کی حفاظت کے لیے ہے کہہ کر تلوار اور تیر کے سامنے کھڑے ہو کر اس دعوے کو سچ کر دکھایا۔افسوس کہ سنی نوجوان دنیا کی لذتوں میں مشغول ہو چکے ہیں، جبکہ صحابہ کی زندگیاں دین، عقیدہ، اور رسول اللہ ﷺ کے لیے وقف تھیں۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اُحد کا میدان تپ رہا تھا ،تیروں کی بوچھاڑ تھی تلواروں کی جھنکار تھی،لیکن چند عاشقانِ رسول ﷺ اپنے سینوں کو سپر بنائے، ایک ہی صدا دے رہے تھے: یا رسول اللہ! میری گردن آپ کی گردن کے لیے ہے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کو بچانے کے لیے سینے کو ڈھال بنایا۔
اور آج...؟
آج کا سنی نوجوان نہ مسجد کا ہے، نہ مدرسے کا
نہ قرآن سے شناسائی، نہ سیرت سے آشنائی
نہ غیرتِ ایمانی ہے، نہ عشقِ رسول ﷺ کا تڑپتا ہوا دل وہ صحابہ جنہوں نے جانیں قربان کیں، آج کے نوجوان کے پاس چند لمحے بھی نہیں نبی کریم ﷺ کے لیے، وہ جنہوں نے ننگے پاؤں جہاد کیا۔
آج کے نوجوان فیشن، موبائل، اور کھیل میں مگن ہیں، وہ لوگ جو نبی کریم ﷺ کی سینہ کی حفاظت کے لیے اپنا سینہ دے رہے تھے،آج کے نوجوانوں کے دل اور آنکھیں موبائل پر فحاشی میں مصروف ہیں، صحابۂ کرام نبی ﷺ کے دین کے لیے قرآن کو سینوں میں اتارتے تھے، آج ان کے نام لیوا وہی قرآن سالوں سے نہیں کھولتے کیا ہم واقعی عاشقِ رسول ﷺ کہلانے کے لائق ہیں؟
اگر ہاں تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا! عشق، قربانی مانگتا ہے۔ نعرے نہیں، عمل چاہتا ہے محبت، آنسو، نماز، غیرت، حیاء، اور دین کے لیے کھڑا ہونا چاہتا ہے۔
اٹھو اے سنی نوجوانو! تاریخ تمہیں دیکھ رہی ہے۔ تمہارے نعرے، تمہاری مسجدیں، تمہارے مدرسےلیکن سب بیکار ہیں، کیا واقعی آپ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت خبیب رضی اللہ عنہ، اور تمام صحابۂ کرام جیسے عاشقوں کی صف میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں؟
وقت آ چکا ہے کہ ہم بھی ہم اپنی نسل، ہم اپنی جوانی، ہم اپنی زندگی کو دینِ مصطفیٰ ﷺ کے لیے وقف کر دیں۔ اے اللہ! ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرما جو تیرے رسول ﷺ پر اپنی جان و مال قربان کرتے ہیں،اور ہمیں آپ ﷺ کی محبت پر ثابت قدمی عطا فرما، اور ہمیں اُن کے قافلے میں اٹھا،اور ہمیں ان کی شفاعت سے محروم نہ فرما،ہمارے دین، ہمارے عقیدے اور نبی کریم ﷺ کی حرمت پر ہماری غیرت کی حفاظت فرما،اور ہمیں اُن میں شامل فرما جو آپ ﷺ پر سچی غیرت رکھتے ہیں،اور ہمارے لیے اپنے دین کی نصرت اور اپنے نبی ﷺ کی حرمت کے تحفظ کی راہ میں شہادت لکھ دے۔ آمین یا رب العالمین۔