عنوان: | کون مجدّد الف ثانی؟ |
---|---|
تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
دسویں صدی ہجری میں جب برِّصغیر کا علمی و فکری ماحول بگڑ چکا تھا، دینِ الہٰی تیزی سے پھیل رہا تھا، وحدتِ ادیان اور وحدۃ الوجود کی غلط تعبیریں رائج ہو رہی تھیں، بادشاہ جلال الدین اکبر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا تھا، حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے دیا گیا تھا، یہاں تک کہ مسلمان احکامِ اسلام ظاہر کرنے سے بھی قاصر تھے۔ اگر ظاہر کرتے تو قتل کر دیے جاتے۔ کوئی بھی بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت نہ رکھتا تھا۔
ایسے پرآشوب اور تاریک زمانے میں ربّ تعالیٰ نے سرہند کی بابرکت سرزمین پر 14 شوال المکرم 971 ہجری کو خلیفہ ثانی حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی نسل سے قطب المجدّدین، غوث الکاملین، امامِ ربانی، مجدّدِ الفِ ثانی، شیخ احمد فاروقی سرہندی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کو جلوہ گر فرمایا۔
آپ کا اسمِ گرامی: احمد، کنیت: ابوالبرکات اور لقب: بدر الدین تھا۔
آپ کے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ جید عالم اور ولی کامل تھے، جن سے آپ نے علوم و فنون کا گہرا فیض پایا۔ آپ کو کئی سلاسلِ طریقت سے اجازت و خلافت حاصل تھی، خصوصاً سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت پائی۔
آپ نے اپنی روحانی قوت، قلمی جہاد اور عظیم اخلاق سے باطل نظریات کا رد کیا۔ دینِ الہٰی کی جڑیں اکھاڑ دیں، اور بادشاہوں کے اکڑے ہوئے سروں کو خم کر دیا۔ آپ کی کوششوں کی بدولت برصغیر ایک بار پھر ایمان و اسلام کے نور سے جگمگا اٹھا، کفر و ضلالت کے بادل چھٹ گئے، اور دلوں میں معرفت و توحید کے چراغ روشن ہوئے۔
مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا دور از حد پر آشوب تھا۔ ہر سو بدعت و دلالت کے اندھیرے پھیلے ہوئے تھے لیکن اللہ! اللہ! آپ کے عزم و استقلال کا یہ عالم تھا کے بادشاہ وقت نے سجدہ تعظیمی کے لیے مجبور کیا لیکن آپ نے فرمایا: جو سر بارگاہ الوہیت میں جھکتا ہو کسی اور کے دروازے پہ کیسے جھک سکتا ہے؟ بادشاہ غیظ و غضب کا نشان بن گیا ادھر آپ کے مخلصین نے یہ مشورہ دیا کہ بادشاہوں کے لیے سجدہ تعظیمی جائز ہے سجدہ تعظیمی کر لیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔ لیکن اس مرد حق نے فرمایا: یہ فتویٰ تو رخصت ہے عزیمت یہ ہے کہ غیر حق کے سامنے سجدہ نہ کیا جائے۔
پھر اس کے بعد آپ کو طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور آپ کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا لیکن مجال ہے جو عزم و استقلال کے عظیم پيکر کے قدموں میں نغزش پیدا ہوئی ہو۔ آج آپ کے عزم و استقلال کی درخشندہ مثال سے تاریخ حریت جگمگا رہی ہے۔ آپ نے اپنی جرات و استقامت سے اکبری و جہانگیری طوفانوں کے رخ موڑ دیئے اور دين اسلام کے دفاع کا فریضہ سر انجام دیا۔
اس بات پر مورخین کرام کا اجماع ہے کہ اگر آپ کی ذات مقدسہ سرزمین ہند میں جلوہ افروز نہ ہوتی تو دین الہٰی کی تاریکی اسلام کے اجالوں کو حذف کر جاتی۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آج جو مساجد میں آذانیں دی جارہی ہیں مدارس سے قال الله تعالی و قال رسول الله ﷺ کی دالنواز صدائیں بلند ہو رہی ہیں، اور خانقاہوں میں جو ذکر وفکر ہو رہا ہے، اور قلب و روح کی گہرائیوں سے جو اللہ کی یاد کی جاتی ہے، یا لا الہ الا اللہ کی ضربیں لگائی جاتی ہیں، تو ان سب کی گردنوں پر حضرت مجدد کا بار منت ہے، اگر حضرت مجدد اس الحاد وارتداد کے اکبری دور میں اس کے خلاف جہاد نہ فرماتے اور وہ عظیم تجدیدی کارنامہ انجام نہ دیتے تو نہ مساجد میں آذانیں ہوتیں اور نہ مدارس دینیہ میں قرآن، حدیث، فقہ اور باقی علوم کا درس ہوتا اور نہ خانقاہوں میں سالکین و ذاکرین اللہ کے روح افزا ذکر سے زمزمہ سنج ہوتے۔ الا ماشاء الله (سیرت مجدّد الف ثانی)
آپ نے نیکی کی دعوت اور لوگوں کی اصلاح کے لیے مختلف ذرائع استعمال فرمائے۔ آپ نے پوری زِندگی حق کی سربلندی کے لیے صرف کی، کبھی باطل کے آگے سر نہیں جھکایا، تا عمر نیکی کی دعوت دیتے رہے، بالآخر 28 صفر المظفر 1034 ہجری کو جان عزیز اپنے خالق حقیقی کے سپرد کر دی۔ نمازِ جنازہ آپ کے شہزادے خواجہ محمد سعید علیہ الرحمہ نے پڑھائی۔ اور سرہند (پنجاب ہند) کی مبارک زمین میں وصیت کے مطابق اپنے شہزادے خواجہ محمد صادق علیہ الرحمہ کے پہلو میں مدفن ہوئے۔
چھٹی ظلمت، مٹی بدعت، ضلالت ہو گئی رخصت
افق پر چاند جب چمکا مجدّد الف ثانی کا
مٹا کر سارے فتنوں کو کیا یوں دین کو زندہ
زمانہ ہو گیا شیدا مجدّد الف ثانی کا
مولیٰ کریم آپ کی قبرِ انور پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے اور آپ کے علم و فیض کا صدقہ ہم سب کو عطا کرے۔ آمین بجاہ النبی الأمین ﷺ