عنوان: | ماضی اور حال کی زندگی: ایک تقابلی مطالعہ |
---|---|
تحریر: | محمد ریحان عطاری مدنی مرادآبادی |
پیش کش: | دار النعیم آنلائن اکیڈمی، مرادآباد |
زندگی ہمیشہ سے تغیر پذیر رہی ہے۔ ہر دور نے اپنے ساتھ ایک نیا رنگ، نیا انداز اور نیا طرزِ حیات پیش کیا ہے۔ اگر ہم ماضی کی زندگی کو موجودہ دور کی جدید زندگی سے موازنہ کریں تو یہ فرق واضح اور نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ جہاں ماضی کی زندگی سادگی، قناعت اور فطری اصولوں کی حامل تھی، وہیں آج کی زندگی پیچیدگی، صنعتی ترقی اور معاشی دوڑ کی عکاسی کرتی ہے۔
معاشی پہلو: زراعت سے صنعت تک
پہلے زمانے میں زندگی کا بنیادی دار و مدار زراعت پر تھا۔ لوگ اپنے کھیتوں میں خود محنت کرتے، فصلیں اگاتے، اور انہی فصلوں سے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرتے۔ زراعت صرف ایک پیشہ نہیں، بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی تھی۔ گھریلو پیداوار پر انحصار، سادہ اوزاروں سے کام لینا اور خالص فطری نظام ہی ان کا معاشی ڈھانچہ تھا۔
مگر آج کا دور صنعتی ترقی کا دور ہے۔ زراعت اب صرف بنیادی ضرورت پوری کرنے کا ذریعہ نہیں رہی بلکہ یہ ایک منافع بخش تجارتی شعبہ بن چکی ہے۔ جدید زرعی آلات، کیمیائی کھادیں، جراثیم کش ادویات، اور مشینی نظام نے زراعت کو ایک مکمل صنعت بنا دیا ہے۔ اب زراعت صنعت کو خام مال فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے، نہ کہ صرف کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری کا۔
سماجی زندگی: قدیم اقدار سے جدید روش تک
سماجی زندگی میں بھی ماضی اور حال کے درمیان نمایاں فرق ہے۔ قدیم دور میں معاشرہ سادہ، باہمی تعاون پر مبنی اور اقدار سے مزین ہوتا تھا۔ افراد آپس میں جُڑے ہوئے ہوتے، بزرگوں کی عزت، ہمسایوں کا احترام اور مہمان نوازی جیسے عناصر ہر گھر کا حصہ ہوتے۔ مگر جدید دور میں انفرادی طرزِ زندگی، مشینی مصروفیات، اور وقت کی قلت نے معاشرتی تعلقات کو کمزور کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر گہری وابستگی نے حقیقی میل جول کو محدود کر دیا ہے۔ اب رشتے صرف رسموں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، جبکہ دلوں کی قربت میں کمی آ چکی ہے۔
رہائش و تعمیرات: کچی دیواروں سے بلند و بالا عمارات تک
قدیم دور میں لوگ مٹی، لکڑی یا پتھروں سے اپنے گھر بناتے تھے۔ ان میں فطری سادگی، فضا کا بہاؤ، اور ماحولیاتی ہم آہنگی ہوتی۔ مگر آج جدید تعمیرات میں سیمنٹ، سریا، شیشے اور اسٹیل کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ اب گھروں کی اونچائی، آرائش و زیبائش، اور جدید سہولیات ہی معیارِ زندگی سمجھی جاتی ہیں۔
لباس: سادگی سے فیشن تک
لباس بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہوا۔ ماضی میں لوگ سادہ اور قدرتی مواد سے بنے لباس پہنتے تھے، جو مقامی حالات سے ہم آہنگ ہوتے تھے۔ آج کے دور میں لباس فیشن کا نمائندہ بن چکا ہے۔ مصنوعی کپڑے، عالمی طرز کے ملبوسات، اور موسمی فیشن کا غلبہ نظر آتا ہے۔
تعلیم: محدود دائرے سے وسیع میدان تک
ماضی میں تعلیم صرف مردوں تک محدود تھی، اور وہ بھی عموماً مذہبی اداروں، جیسے کہ مساجد یا کلیساؤں میں حاصل کی جاتی۔ لڑکیوں کی تعلیم پر اکثر پابندیاں ہوتی تھیں۔ مگر موجودہ دور میں تعلیم مرد و زن دونوں کا بنیادی حق بن چکی ہے۔ خواتین نے ہر میدان میں علم کی روشنی سے اپنے مقام کو روشن کیا ہے، اور تعلیمی ادارے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔
ذرائع آمد و رفت: اُونٹوں سے ہوائی جہاز تک
آمد و رفت کے ذرائع میں جو انقلاب آیا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ماضی میں لوگ گھوڑوں، اونٹوں یا پیدل سفر کرتے تھے، جو نہایت صبر آزما ہوتا۔ مگر آج ہوائی جہاز، ٹرینیں، بحری جہاز، اور تیز رفتار گاڑیاں سفر کو نہ صرف آسان بلکہ انتہائی تیز تر بنا چکی ہیں۔ اب ہزاروں میل کی مسافت چند گھنٹوں میں طے ہو جاتی ہے۔
تکنالوجی کا کردار: ماضی کی سادگی سے حال کی جدت تک
اگر ہم ماضی و حال کے فرق کو کسی ایک عنصر میں سمونا چاہیں تو وہ تکنالوجی ہے۔ ماضی میں لوگ ہاتھ کے پنکھوں سے گرمی دور کرتے تھے، لکڑی جلا کر کھانا پکاتے تھے اور سردی سے بچنے کے لیے لحاف استعمال کرتے تھے۔ آج یہی کام بجلی سے چلنے والے آلات کرتے ہیں: ایئرکنڈیشنر، گیس چولہے، ہیٹرز وغیرہ۔
اسی طرح تفریح کے ذرائع بھی بدل گئے۔ پہلے لوگ کہانیاں سن کر، کتابیں پڑھ کر یا میلوں میں شرکت کر کے وقت گزارتے تھے، مگر آج ٹی وی، ویڈیو گیمز، فلمیں، اور سوشل میڈیا نے تفریح کے معانی ہی بدل دیے ہیں۔ انسان کی دلچسپیاں چند محدود چیزوں سے نکل کر ڈیجیٹل دنیا کے وسیع میدان میں داخل ہو چکی ہیں۔
نتیجہ: گو کہ ماضی کی زندگی سادہ، پر سکون اور باہمی ہم آہنگی سے بھرپور تھی، مگر آج کی زندگی سہولیات، ترقی اور جدت سے مزین ہے۔ ہر دور کے اپنے فوائد اور خامیاں ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ماضی کی قدروں کو فراموش کیے بغیر، حال کی ترقی سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ایک متوازن، باوقار اور بامقصد زندگی اختیار کریں۔ ماضی سے سبق اور حال سے استفادہ ہی ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔