عنوان: | تصوّف: شریعت کی روشنی میں |
---|---|
تحریر: | فرح فاطمہ |
تصوف کا لفظ آج ہر پڑھے لکھے مسلمانوں میں اتنا رائج ہے کہ فرائض واجبات کے بعد شاید ہی اسلام کے لٹریچر میں کوئی دوسرا لفظ اتنا عام ہو ،لیکن اس کی حقیقت سے ناواقفیت کی وجہ سے اکثر لوگوں میں تصوف میں بارے میں غلط تصورات قائم ہیں۔ جو لوگ تصوف کی اصل حقیقت سے ناواقف ہیں ان کے دو گرہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ گروہ ہے جو محض نادانی کی وجہ سے تصوف کا منکر ہے اور اسکو بدعت سمجھتا ہے بلکہ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو گو کہ تصوف کے مالک حامی ہیں اور ان میں سے بعض اس پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن اس کو شریعت کے تابع رکھنا نہیں چاہیے ایسے لوگوں کے مطابق گو کہ الگ الگ راستے ہیں۔
تصوف شریعت سے جدا کوںٔی راستہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ شریعت کا ہی ایک جز ہے قرآن میں جس کے تزکیہ کا نام اور حدیث میں جس کیلئے احسان کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
تصوف یا احسان
حقیقی تصوف جو کہ احسان ہے حدیث میں اس طرح واضح ہے۔
قَالَ مَا الاَحْسَانُ ؟ قَالَ اَنْ تَعْبُدَ الَلَّہِ کَاَنَّکَ تَراَہُ فَاِنْلَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَراَکَ (بخاری: ٤٧٧٧)
ترجمہ: حضرت جبراںٔیل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: احسان کے متعلق کچھ فرمائیے تو آپ نے فرمایا تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا ہے سمجھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
یہ ایک صحیح حدیث کا حصہ ہے جسے امام بخاری ومسلم دونوں حضرات نے روایت کیا ہے۔ اس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اس سوال کے جواب ہیں کہ احسان کیا ہے حضور اکرم ﷺنےاس کی تشریح فرماںٔی۔ دراصل تصوف کا بنیادی مقصد عبادت کے اندر ایسی کیفیت کو پیدا کرنا ہے۔ رہے اذکار واشغال، مجاہدات وریاضت تو وہ بطور علاج ہیں اور ان کا مقصد نفس کو پاک وصاف کرنا ہے کیونکہ بغیر تزکیہ نفس کے انسان کے اندر سے امراض باطنہ نہیں نکالتے اور بغیر امراض سے چھٹکارا پاۓ انسا کا اللہ سے صحیح تعلق قاںٔم نہیں ہو سکتا اور بغیر تعلق باللہ کے عبادت کے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے فرائض نبوت میں سے ایک اہم منصب تزکیہ کا تھا۔
تزکیہ نفس
ھُوَ الَلہُ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاَ مِنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ آیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَّلِمُھُمْ الکِتٰبَ وَالْحِکْمَتَہَ وَاِنْ کاَنُوْا مِنْقَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ (الجمعہ ٢)
ترجمہ کنزالایمان: وہی ہے جس نے لوگوں میں سے ان ہی میں سے عظیم رسول بھیجا جو ان پر ان کی آیت تلاوت کرتے ہیں اور ان کے باطن کو صاف کرتے ہیں اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں
تزکیہ نفس کی اہمیت کو قرآن کریم میں مختلف جگہ واضح فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے بیشک جس نے نفس کو پاک کیا کامیاب رہا اور جس نے اس کو میلا کیا ناکام رہا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے فیض محبت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کا تزکیہ نفس اور اصلاح قلب بھی ہوتی تھی آپ ﷺ کے بعد کچھ عرصہ تک تو ایسے علماء کاملین پیدا ہوتے رہے جو وراثت نبی ﷺ کے چاروں حصے بیک وقت طالبین کو تقسیم کرتے رہے۔ صحابہ نہ صرف تلاوت آیات کرکے غیر مسلموں کو دعوتِ اسلام اور مسلمانوں کو دعوتِ قرب دیتے، احکام الہیہ و حکمت ایمانی کی تعلیم دیتے بلکہ تابعین نفوس کو مہذب بھی بناتے تھے۔
تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں بھی اسی طرح خدمات دین کا دائرہ وسیع رہا۔ چنانچہ متقدمین آئمہ فقہاء کے یہاں علم الذہد کے عنوان سے تزکیہ نفس کا علم بھی ملتا ہے۔ اںٔمہ فقہاء یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ، امام ماک رحمہ اللہ علیہ، امام شافعی رحمہ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نیز سفیان، سفیان بن عینیہ وغیرہ جہاں علم الاحکام میں درجہ اجتہاد وامانت پر فائز تھے۔
وہاں وہ علم تزکیہ باطن بھی اُونچے مقامات پر فائز تھے لیکن بعد میں ایسے علماء کاملین کی قلت ہوگئی اس سے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اعمال باطنہ کی تعلیم اور تزکیہ نفس کی ذمہ داری کو قبول کرنےکے لیے کچھ لوگ آگے بڑھیں اسے وجہ سے متاخرین نے شریعت کو دو حصوں میں منقسم کیا شریعت کا جز ومتعلق بالأعمال ظاہرہ کا نام فقہ ہوگیا اور دوسرے جز و باعمال باطنہ کا نام تصوف ہوگیا۔