عنوان: | العسر یجلب الیسر (مشقت آسانی لاتی ہے) رودادِ سفر |
---|---|
تحریر: | محمد نثار رضا عطاری |
پیش کش: | جامعۃ المدینہ فیضانِ مخدوم لاہوری موڈاسا، گجرات |
16 اکتوبر 2024 کو راقم کی طبیعت علیل ہوئی، وائرل بخار لاحق ہوا۔ آرام ہوتا، رات بخار کی شدت میں کمی لگتی تو صبح بخار پھر اپنے عروج پر ہوتا۔ اسی طرح چند ایام گزر گئے۔ ایک دن تو راقم کمزوری کے سبب گر پڑا، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے۔ فوراً ہی رفقائے درس ہاسپیٹل لے گئے۔ نکاہت کا عالم یہ تھا کہ زبان سے ما فی الضمیر کی ادائیگی اور آنکھیں کھول کر دیکھنے کی بھی سکت نہ تھی۔ خیر، ایڈمٹ ہوتے ہی گلوکوز کی بوتلیں چڑھیں اور کمزوری سے کچھ افاقہ ہوا۔ وہاں کچھ گھنٹے ایڈمٹ رہا، پھر طبیعت کچھ سنبھلنے پر اپنے جامعۃ المدینہ واپسی ہوئی۔
یہ راقم کی زندگی کا پہلا ایسا موقع تھا کہ ہاسپیٹل بیمار بن کر گیا، ورنہ اب تک تیماردار بن کر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ چونکہ طبیعت مکمل طور پر ٹھیک نہ ہوئی تھی، لہٰذا علاج و معالجہ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران ایک چیز کا احساس ہوا کہ مریض کو دواؤں سے زیادہ کوئی ایسا ہم نشیں چاہیے ہوتا ہے جس سے وہ اپنا دل بہلائے۔ بہرحال! اس دورانیے میں مسلسل کمزوری ہم رکاب رہی اور حالت یہ تھی کہ سہارے سے اٹھنا بیٹھنا پڑتا، حتیٰ کہ نماز میں دیوار کے سہارے قیام کرنا پڑتا۔
بیماری، بلندیٔ درجات کا سبب
اساتذہ کرام عیادت کے لیے برابر کرم فرماتے، خصوصاً مفتیان کرام جنہیں ہمارے جامعۃ المدینہ (موڈاسا) میں طلبہ "شیخین" سے موسوم کرتے ہیں۔ میری مراد مفتی وسیم اکرم مصباحی صاحب اور مفتی سرفراز احمد مصباحی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ ان کی بھی کرم نوازی راقم پر رہی۔ یہ عیادت یاد رہ گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ اپنے ایک عزیز دوست نہال عطاری سے کال پر بات کر رہا تھا، اور مفتیان کرام اللہ اکبر! جن کی عاجزی محتاجِ بیان نہیں، میرے کال سے فارغ ہونے کے منتظر تھے۔ تب ایک ساتھی نے مجھے خبر دی کہ آپ کی عیادت کے لیے مفتیان کرام تشریف لائے ہیں۔ اس وقت مجھے رنج بھی ہوا کہ میرے لیے ان ذی مرتبہ ہستیوں کو منتظر رہنا پڑا، اور ان کے اس عمل سے اپنے طلبہ کے ساتھ حسنِ معاشرت کا ایک مدنی پھول بھی ملا۔
بہرحال! دونوں مفتیان کرام نے عیادت فرمائی۔ مفتی سرفراز احمد مصباحی صاحب قبلہ نے راقم کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اور پہلوان، کیسے ہو؟ اسی دوران مفتی وسیم اکرم مصباحی صاحب کو بھی مخاطب کرتے ہوئے لب کشائی فرمائی: یہ بھی آپ کی طرح پہلوان ہیں۔ پھر مفتی وسیم اکرم مصباحی صاحب کی جانب سے کسی جواب کے تئیں ہمہ تن گوش ہوئے تو انہوں نے بھی میری دل جوئی کرتے ہوئے جواباً لب کشائی فرمائی اور اپنی کلائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہاں! یہ بھی میری طرح پہلوان ہیں، بس تھوڑا سا فرق ہے۔
پھر ایک نصیحت فرمائی جس پر میں نے اپنے کان ٹکائے۔ فرمایا: بیماریاں بلندیٔ درجات کا سبب بنتی ہیں، سابقہ گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں، گناہوں سے بچنا۔ اس پر میں نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا: "ان شاء اللہ۔" پھر اس گفت و شنید کے بعد وہ مجھ سے رخصت ہوگئے۔
بزرگوں کی بارگاہ میں حاضری کا انداز
چند دنوں کے بعد جب افاقہ ہوا، کچھ طبیعت سنبھلی لیکن کمزوری ابھی بھی میرے ہم رکاب رہی تو گھر جانے کا قصد کیا۔ اس سبب سے مدینۃ الاولیا احمد آباد شریف سفر کے لیے روانہ ہوا اور وہیں کچھ دن مدینۃ الاولیا احمد آباد شریف کے جامعۃ المدینہ میں قیام پذیر رہا۔ اسی دوران ایک مشہور بزرگ شاہ وجیہ الدین علیہ الرحمہ کے مزار مبارک جانے کی سعادت نصیب ہوئی، جن کے بارگاہ کی شکر بڑی مشہور ہے، جسے زبان سے چاٹا جاتا ہے تو زبان کی لکنت والے کو لکنت سے شفایابی ملتی ہے۔
اپنی حاضری کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ یکدم مفتی وسیم اکرم مصباحی صاحب کا مزاراتِ اولیاء پر حاضری کا انداز، جو حضرت نے خود ارشاد فرمایا تھا، یاد آیا اور وہ یہ کہ: اپنے پیر و مرشد اور اپنے استاد صاحب کے واسطے اور اپنی امی کی اجازت کے ساتھ حاضری دینا۔
راقم نے بھی اسی طریقۂ کار کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پہلے اپنی والدہ سے رابطہ کرکے اجازت طلب کی، بعدہٗ لرزتے ہوئے استاد صاحب کو کال کیا اور لرزہ براندام آواز میں سلام کے بعد اجازت طلب کی تو استاد صاحب نے کچھ یوں فرمایا: میرا سلام عرض کریں اور دعائیں بھی۔ تب دل نے مجھ سے سرگوشی کی کہ اب تو کام بن گیا کہ پہلے تو غیر امتیازی حاضری ہوتی لیکن اب تو نسبت کے ساتھ حاضری ہوگی کہ نسبت سے شے ممتاز ہوتی ہے۔
حضور شیخ الاسلام مدنی میاں کی بارگاہ میں حاضری
مزار پاک کی حاضری کی واپسی کے بعد معلوم ہوا کہ جامعہ سے قریب ہی حضور شیخ الاسلام مدنی میاں مد ظلہ العالی کا مدنی مسکن ہے، اور مغرب کے بعد حضرت خصوصی ملاقات بھی فرماتے ہیں۔ لہٰذا مدنی مسکن کا پتہ معلوم کرنے کے لیے علاقے کا دورہ کرتے اور لوگوں سے پوچھتے ہوئے ان کے ایک مرید سے راقم کی ملاقات ہوگئی۔ کچھ گفت و شنید ہوئی تو انہوں نے دورانِ کلام بتایا کہ حضرت آپ کے جامعۃ المدینہ احمد آباد سے قریب ہی ایک مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے تشریف لاتے ہیں۔
چونکہ آج جمعہ کا دن بھی تھا اور نمازِ جمعہ کا وقت بھی قریب تھا، تو وہ مرید صاحب خود مجھے پہلے حضرت کے قیام گاہ کی زیارت کے لیے مدنی مسکن لے گئے اور اس کے بعد مسجد بھی لے گئے۔ قسمت نے انگڑائی لی کہ جس وقت میں مسجد پہنچا، اسی وقت حضرت کی بھی آمد ہوئی اور معاً مسجد میں داخلہ ہوا۔ حضرت قبلہ رو تشریف فرما ہوئے، جبکہ میرا قبلہ حضرت تھے۔ حضرت کے چہرے سے وقار و جلالتِ علم ٹپک رہا تھا اور خوب سیر ہو کر زیارت سے مشرف ہوا۔
وقتِ مغرب آنے کے بعد مدنی مسکن میں بھی حضرت کی بارگاہ میں حاضری اور چادر بوسی کا موقع میسر آیا۔ کتنی سچی بات ہے یہ کہ جب رحمتِ الٰہی بندے کے شامل حال رہتی ہے تو غیب سے اسباب بنتے ہیں۔
مجلس المدینۃ العلمیہ کا معائنہ
جب جامعۃ المدینہ (احمد آباد شریف) کا معائنہ کر رہا تھا تو مجلس المدینۃ العلمیہ کی برانچ وزٹ کرنے کا موقع ملا، جس میں مجلس کے رکن عالی شان مدنی صاحب اور ظہیر مدنی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ المدینۃ العلمیہ سے شائع شدہ ایک کتاب کی تصحیح سے متعلق عرض کیا؛ دراصل یہ کتاب مترجم تھی۔ مطالعہ کے دوران اصل سے موازنہ کرنے پر کچھ کمی ظاہر ہوئی، خیر انہوں نے بحسن و خوبی اسے قبول کیا۔
مقالہ نگاری کے متعلق کچھ اہم اصول
عالی شان مدنی صاحب سے چونکہ مقالہ نگاری کے تئیں پہلے سے رابطہ تھا، تو موقع غنیمت جان کر ان سے مقالہ نگاری کے کچھ ٹپس لیے۔ انہوں نے دعوتِ اسلامی کے تحت شائع ہونے والے رسالہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ سے متعلق کچھ اہم نکات بیان کیے جو درج ذیل ہیں: ماہنامہ کے مجلس سے طے شدہ مضمون میں ٹاپک کا لحاظ رکھنا۔ حوالہ جات کا معیار۔ پہلے اسمِ جلالت کے لیے "اللہ عزوجل" رائج تھا لیکن اب "اللہ پاک" مروج ہے۔
نمبر دینے کے لحاظ سے مضمون کو چند حصوں میں تقسیم کرنا مثلاً حوالہ جات، مواد کا چناؤ اور الفاظ کا انتخاب، تو مجموعی نمبر جس کا زیادہ ہوگا، اس کا مضمون ماہنامہ میں شائع ہوگا۔
بہترین مشیر
چونکہ ایمرجنسی میں گھر کے لیے روانگی تھی تو میرے پاس جانے کے اسباب یعنی ٹرین ٹکٹ نہ تھا۔ اس کے لیے ہر چند کوشش کرتا رہا، لیکن ما شاء اللہ کان، ولم یشاء لم یکن یعنی ہوا وہی جو میرے رب نے چاہا۔ ابھی گھر جانا مشیتِ الہٰی نہ تھا، تو نہ جا سکا۔ ہوا کچھ یوں کہ ان دنوں طبیعت کافی بحال ہو چکی تھی، تو اپنے استاد مفتی شہباز انور برکاتی مصباحی صاحب کو کال کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا کہ: حضرت! میں تشویش میں مبتلا ہوں کہ جامعۃ المدینہ(موڈاسا) واپس آؤں یا کیا کروں؟ مشیر آمین ہوتا ہے، تو میرے استاد صاحب نے بہترین مشورہ سے نوازا کہ: اگر طبیعت بحال ہو چکی ہے تو جامعۃ المدینہ واپس آجائیں، کیونکہ گھر جانے سے آپ کی پڑھائی کا نقصان ہوگا۔ لہٰذا راقم نے اس مشورے کو بروئے کار لاتے ہوئے جامعۃ المدینہ واپس آ گیا۔
اپنے اس دو یومیہ سفر کے دوران رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی تصنیف لالہ زار اور زلف و زنجیر بھی زیرِ مطالعہ رہی، جن سے کچھ الفاظ کا انتخاب کرکے اپنے اس سفرنامے میں اندراج کیا، جس سے اس رودادِ سفر کو چار چاند لگ گئے۔ یہ سفر اس مقولے کا مصداق ہوا کہ العسر یجلب الیسر (مشقت آسانی لاتی ہے) کہ کئی ایسے کام جو معلق تھے، ان کی تکمیل کا متمنی تھا لیکن اس کے اسباب نہ بنتے تھے، اس سفر کے ذریعے پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ والحمد للہ رب العالمین۔