عنوان: | حضورﷺ نے مکّہ شریف سے ہجرت کیوں فرمائی؟ |
---|---|
تحریر: | محمد فرقان رضا حنفی |
پیش کش: | جامعہ عربیہ انوارالقرآن، بلرام پور |
ہجرت کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا دیس، اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جانا۔ مکّہ شریف تو حضور ﷺ کا وطن تھا، ترپن برس حضور ﷺ وہاں رہے تو پھر حضور ﷺ نے مکّہ سے ہجرت کیوں فرمائی؟ بات یہ ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال کی ہوئی اور حضور ﷺ پر قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضورﷺ نے پہلے صرف اپنے خاص خاص لوگوں میں اپنا پیغمبر ہونا ظاہر کیا۔ خوش نصیب لوگوں نے آپ کی بات سُن کر آپ کو اللہ کا رسول مان لیا اور مسلمان ہو گئے۔
پھر تین برس گزر جانے کے بعد حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا حکم پا کر پورے مکّے والوں کے سامنے اپنی نبوّت اور پیغمبری کا اعلان فرمایا اور ان کو یہ بھی سُنا دیا کہ تم کن بُتوں کو پُوجتے ہو، وہ پتّھر کی صرف بے جان مُورتیاں ہیں، انھیں پُوجنا چھوڑ دو، صرف ایک اللہ کو اپنا معبود مانو۔ مکّہ کے کفّار حضور ﷺ کا یہ اعلان سُن کر جل بُھن اُٹھے اور اُسی وقت حضور ﷺ کے سخت دشمن بن گئے اور کمزور مسلمانوں کو رات دن سَتانے لگ گئے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:
وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَؕ-وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ (سورة الانفال: 30)
ترجمۂ کنز الایمان: اور اے محبوب! یاد کرو جب کافر تمہارے ساتھ مکر کرتے تھے کہ تمہیں بند کر لیں یا شہید کر دیں یا نکال دیں، اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا، اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔
اس آیت میں اُس واقعے کا ذکر ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس رَضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ کفارِ قریش دارالنَّدوہ (یعنی کمیٹی گھر) میں رسولِ کریم ﷺ کے بارے میں مشورہ کرنے کے لئے جمع ہوئے اور ابلیس لعین ایک بُڈھے کی صورت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں نجد کا شیخ ہوں، مجھے تمہارے اس اجتماع کی اطلاع ہوئی تو میں آیا، مجھ سے تم کچھ نہ چھپانا، میں تمہارا رفیق ہوں اور اس معاملہ میں بہتر رائے سے تمہاری مدد کروں گا۔ انہوں نے اس کو شامل کر لیا اور تاجدارِ رسالت ﷺ کے متعلق رائے زنی شروع ہوئی۔
ابوالبختری نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ محمد ﷺ کو پکڑ کر ایک مکان میں قید کر دو اور مضبوط بندشوں سے باندھ کر دروازہ بند کر دو، صرف ایک سوراخ چھوڑ دو جس سے کبھی کبھار کھانا پانی دیا جائے اور وہیں وہ ہلاک ہو کر رہ جائیں۔ اس پر شیطان لعین جو شیخِ نجدی بنا ہوا تھا بہت ناخوش ہوا اور کہا: بڑی ناقص رائے ہے، جب یہ خبر مشہور ہوگی تو اُن کے اصحاب آئیں گے اور تم سے مقابلہ کریں گے اور انہیں تمہارے ہاتھ سے چھڑا لیں گے۔ لوگوں نے کہا: شیخِ نجدی ٹھیک کہتا ہے۔
پھر ہشام بن عمرو کھڑا ہوا، اس نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ ان کو (یعنی محمد ﷺ کو) اونٹ پر سوار کر کے اپنے شہر سے نکال دو، پھر وہ جو کچھ بھی کریں اس سے تمہیں کچھ ضرر نہیں۔
ابلیس نے اس رائے کو بھی ناپسند کیا اور کہا: جس شخص نے تمہارے ہوش اُڑا دیے اور تمہارے دانشمندوں کو حیران بنا دیا اس کو تم دوسروں کی طرف بھیجتے ہو! تم نے اس کی شیریں کلامی نہیں دیکھی؟ اگر تم نے ایسا کیا تو وہ دوسری قوم کے دلوں کو تسخیر کر کے ان لوگوں کے ساتھ تم پر چڑھائی کر دیں گے۔ اہلِ مجمع نے کہا: شیخِ نجدی کی رائے ٹھیک ہے۔
اس پر ابوجہل کھڑا ہوا اور اس نے یہ رائے دی کہ قریش کے ہر ہر خاندان سے ایک ایک عالی نسب جوان منتخب کیا جائے اور ان کو تیز تلواریں دی جائیں، وہ سب یکبارگی حضور ﷺ پر حملہ آور ہو کر قتل کر دیں تو بنی ہاشم قریش کے تمام قبائل سے نہ لڑ سکیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ انہیں خون کا معاوضہ دینا پڑے گا اور وہ دے دیا جائے گا۔ ابلیس لعین نے اس تجویز کو پسند کیا اور ابوجہل کی بہت تعریف کی اور اسی پر سب کا اتفاق ہو گیا۔
حضرت جبریل علیہ السلام سرکارِ کائنات ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ پیش کیا اور عرض کی: حضور! رات کے وقت اپنی خواب گاہ میں نہ رہیں، اللہ تعالیٰ نے اِذن دیا ہے، آپ مدینہ طیبہ کا عزم فرمائیں۔
حضورِ اقدس ﷺ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو رات میں اپنی خواب گاہ میں رہنے کا حکم دیا اور فرمایا: ہماری چادر شریف اوڑھ لو، تمہیں کوئی ناگوار بات پیش نہ آئے گی۔
پھر حضور ﷺ دولت سرائے اقدس سے باہر تشریف لائے اور ایک مشت خاک دستِ مبارک میں لی اور آیت {اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا} پڑھ کر محاصرہ کرنے والوں پر ماری، سب کی آنکھوں اور سروں پر پہنچی، سب اندھے ہو گئے اور حضور اکرم ﷺ کو نہ دیکھ سکے۔
اس کے بعد آپ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ غارِ ثور میں تشریف لے گئے اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو لوگوں کی امانتیں پہنچانے کے لئے مکّہ مکرمہ میں چھوڑا۔ مشرکین رات بھر سیّدِ عالم ﷺ کے دولت سرائے اقدس کا پہرہ دیتے رہے۔ صبح کے وقت جب قتل کے ارادہ سے حملہ آور ہوئے تو دیکھا کہ بستر پر حضرت علی کَرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم ہیں۔
انہوں نے حضور ﷺ کے بارے میں پوچھا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: "ہمیں معلوم نہیں۔" کفارِ قریش تلاش کے لئے نکلے، جب غارِ ثور پر پہنچے تو مکڑی کے جالے دیکھ کر کہنے لگے: اگر اس میں داخل ہوتے تو یہ جالے باقی نہ رہتے۔ حضور ﷺ اس غار میں تین دن ٹھہرے پھر مدینہ طیبہ روانہ ہوئے۔ (تفسیر صراط الجنان سورة الانفال آیت 30)
کافروں کی مخالفت کے باوجود حضور ﷺ نے اسلام کی تبلیغ جاری رکھی، لیکن مکّے والوں نے مسلمانوں کا رہنا دوبھر بنا دیا تو حضور ﷺ نے مسلمانوں کو مکّے سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ بہت سے مسلمان مکّہ چھوڑ کر ملکِ حبش چلے گئے اور کچھ لوگ مدینہ شریف پہنچے۔
مکّہ میں اُس وقت جو لوگ سردار اور چودھری مانے جاتے تھے، اُن کا یہ حال تھا کہ خود تو وہ اسلام قبول کرنے پر کسی طرح تیار نہ تھے، لیکن اس کے ساتھ دوسرے لوگوں کو مسلمان ہونے سے بُری طرح روکتے بھی تھے۔ ایسی حالت میں وہاں اسلام کا پنپنا اور پھیلنا دشوار دکھائی دے رہا تھا۔ اِس لیے ہمارے سرکار حضور ﷺ مکّہ سے ہجرت فرما کر مدینہ شریف تشریف لے گئے۔
اس موقع پر حضور ﷺ نے مکّہ مکرمہ کو دیکھ کر فرمایا:
وَاللَّهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللَّهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللَّهِ إِلَيَّ، وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ
اللہ کی قسم! تو اللہ کی سب سے بہتر زمین ہے اور اللہ کی زمین میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، اگر تیرے لوگ مجھے نہ نکالتے تو میں کبھی نہ نکلتا۔
اس وقت حضور ﷺ کی عمر شریف ترپن سال کی تھی۔ ہمارے سرکار جب مدینہ پہنچے تو مدینہ والوں نے آنکھیں بچھا دیں اور انہوں نے بڑی سچّائی اور خلوص کے ساتھ ہمارے سرکار کا ساتھ دیا۔ حضور ﷺ کا مکّہ چھوڑ کر مدینہ چلا جانا ہجرت کہلاتا ہے۔ یہ ایک عام بات ہے کہ انسان کو اپنے وطن سے اپنے گھر بار سے بہت محبت ہوتی ہے، لیکن حضور ﷺ نے محض اللہ تعالیٰ کے پیارے دین کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑ دیا اور مکّہ سے ہجرت کر گئے۔
حضور ﷺ کا مکّہ سے ہجرت کرنا مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ جب سرکار علیہ الصلوٰة والسلام نے اسلام کو زندہ رکھنے اور اسلام پھیلانے کی خاطر اپنے پیارے وطن مکّہ کو چھوڑ دیا تو مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اسلام پر اپنا تن، من، دھن قربان کرنے کے لیے تیار رہیں اور اگر اسلام کو بچانے کے لیے اپنا گھر بار بھی چھوڑنا پڑ جائے تو گھر بار کو بھی خیرباد کہہ دیں۔
چوں کہ حضور ﷺ کی ہجرت ایک ایسا سراپا ہدایت واقعہ ہے جسے ہمیشہ مسلمانوں کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے، اِس لیے حضراتِ صحابہ کرام نے اسلامی سال کو "ہجری سنہ" کے نام سے جاری کیا تاکہ دنیا کے مسلمان جب بھی اپنے حساب و کتاب اور دوسرے کاموں میں ہجری تاریخ اور سنہ لکھیں تو اُن کو سرکار پیارے مصطفٰے ﷺ کی ہجرت کا واقعہ یاد آتا رہے۔