دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

تعلیم نسواں

عنوان: تعلیم نسواں
تحریر: ہانیہ فاطمہ قادری
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

تعلیم انسان کے لیے وہ روشنی ہے جو اسے زندگی کے ہر موڑ پر اندھیروں سے نکال کر کامیابی، ہدایت اور شعور کی طرف لے جاتی ہے۔ تعلیم نسواں یعنی عورتوں کی تعلیم، ایک ایسا موضوع ہے جس کی اہمیت نہ صرف دینی نقطۂ نظر سے ثابت ہے بلکہ ہر مہذب معاشرہ بھی اس کو لازمی قرار دیتا ہے۔

تعلیم نسواں دو الفاظ کا مرکب ہے: تعلیم یعنی علم حاصل کرنا، اور نسواں جو نسا سے ہے، یعنی عورتیں۔ پس تعلیم نسواں سے مراد عورتوں کی تعلیم ہے۔ علم اور تعلیم دونوں اپنی جگہ نہایت اہم اور ضروری ہیں۔

تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور جنت جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا، لیکن جب حضرت آدم علیہ السلام نے تنہائی محسوس کی تو حضرت حوا سلام اللہ علیہا کو پیدا فرمایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ عورت کا وجود کائنات کی تکمیل کرتا ہے۔

عورت کے بغیر انسانی نسل کا استحکام ممکن نہیں۔ عورت ماں کے روپ میں بے لوث محبت و شفقت، ہمدردی و ایثار کی عظیم داستان ہے؛ بہن کے روپ میں اللہ کی بہترین نعمت، بیٹی کے روپ میں خدا کی رحمت، اور بیوی کے روپ میں وفاداری اور چاہت کا حسین افسانہ ہے۔ عورت مرد کے نصف دین کو مکمل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسلام نے عورت کو وہ عزت دی کہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسلام نے عورت کو تحت الثریٰ سے نکال کر فوق الثریٰ تک پہنچا دیا۔

علم ایک لا محدود نعمت ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جس نے انسان کو فرشتوں پر فضیلت بخشی۔ یہی وہ نور ہے جس سے بندہ اپنے خالق کو پہچانتا ہے، اور حلال و حرام، جائز و ناجائز میں فرق کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں علم کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔

جب قرآن کی پہلی وحی نازل ہوئی، اس وقت عرب کا معاشرہ جاہلیت میں ڈوبا ہوا تھا۔ شراب نوشی، بت پرستی، لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا جیسے سنگین جرائم عام تھے۔ ان تمام برائیوں کی جڑ جہالت تھی۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو حکم نازل فرمایا وہ یہ تھا:

اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ (العلق: 1)

کنزالایمان ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ اس حکم کے ذریعے انسانیت کو یہ پیغام دیا گیا کہ برائیوں سے نجات علم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اسلام نے دینی و دنیاوی دونوں علوم کو اہمیت دی ہے، اور خواتین کے لیے علم حاصل کرنا نہ صرف ضروری بلکہ بعض مواقع پر فرض قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَةٌ عَلٰی كُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ (ابن ماجہ: 224)

ترجمہ: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ آپ ﷺ کے زمانے میں خواتین بھی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر علم حاصل کرتیں، اور ازواجِ مطہرات خواتین کو قرآن و حدیث کی تعلیم دیا کرتیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تُبَلِّغَهُمَا جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَنَا وَهُوَ كَهَاتَیْنِ (مسلم: 2631)

ترجمہ: جو شخص دو بیٹیوں کی پرورش کرے اور ان کو تعلیم دے، قیامت کے دن وہ میرے ساتھ اس طرح ہوگا (اور آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیاں قریب کر کے اشارہ فرمایا)۔

ایک مشہور قول ہے:تم ایک مرد کو تعلیم دو، تو ایک فرد تعلیم یافتہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک عورت کو تعلیم دو، تو ایک نسل تعلیم یافتہ ہو جاتی ہے۔

ایک صالح، ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کی بنیاد تبھی رکھی جا سکتی ہے جب اس کی خواتین باشعور، باعلم اور دینی تعلیم سے آراستہ ہوں۔ ایک تعلیم یافتہ عورت صرف ایک گھر نہیں بلکہ پوری نسل کو علم و تربیت کی روشنی میں پروان چڑھاتی ہے۔ لہٰذا تعلیم نسواں وقت کی ضرورت ہی نہیں، شریعتِ مطہرہ کا تقاضا بھی ہے۔

اللہ رب العزت ہمیں دینِ مصطفیٰ ﷺ پر قائم رکھے، شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، اور علمِ نافع سیکھنے، سکھانے والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں