عنوان: | قوامیت: اللہ کی امانت |
---|---|
تحریر: | ہانیہ فاطمہ قادریہ |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس نے عورت اور مرد دونوں کے حقوق و فرائض واضح انداز میں بیان کیے ہیں۔ لیکن جب بات مرد اور عورت کے باہمی تعلق کی ہو تو سب سے اہم اصول سورہ نساء کی آیت 34 میں بیان ہوا:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ
ترجمہ کنزالایمان: مرد عورتوں پرنگہبان ہیں
اس آیت میں مرد کو عورت پر قوام (ذمہ دار و نگہبان) قرار دیا گیا ہے۔ قوامیت کا مفہوم صرف اختیارات یا طاقت نہیں بلکہ ذمہ داری، عدل، شفقت اور قیادت کی حکمتوں پر مبنی ہے۔ مرد کو عورت کی ضروریات، تحفظ، دینی تربیت اور خاندانی نظام کی نگہبانی کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ لیکن یہ فضیلت یا فوقیت عورت کے مقام کو کم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ خاندان کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ہے۔ عورت فطرتاً نرمی، محبت، جذبات اور نزاکت کا پیکر ہے، جب کہ مرد کو اللہ تعالیٰ نے جسمانی، معاشی اور معاشرتی طور پر اس نظام کی قیادت کے قابل بنایا۔
اس آیت کے تحت ایک نہایت اہم شرعی اصول بھی بیان ہوا ہے کہ قوامیت کا ہرگز مطلب ظلم یا جبر نہیں۔ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ایک گھریلو معاملے میں طمانچہ مارنے کا واقعہ پیش آیا۔ جب خاتون نے نبی کریم ﷺ سے شکایت کی تو آپ ﷺ نے مرد کو قصاص (بدلہ) دینے کا حکم فرمایا۔ تاہم، اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی، جس میں قوامیت کی بنیاد پر مرد کو نظمِ خانہ داری کا اختیار دیا گیا۔ مگر ساتھ ہی تفسیر میں واضح فرمایا گیا کہ عورت پر ہاتھ اٹھانا، خاص طور پر ایسا مارنا جس سے نشان پڑ جائے، ناجائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قوامیت ظلم کا نام نہیں، بلکہ اس کی بنیاد حکمت، عدل، ذمہ داری اور تحفظ پر ہے۔
اسلامی معاشرت میں مرد و عورت دونوں کو ان کی فطری اور شرعی ذمہ داریاں دے کر ایک باوقار نظام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ قوامیت کو اگر سمجھ بوجھ، محبت اور خوفِ خدا کے ساتھ نبھایا جائے تو یہ عورت کے لیے سب سے بڑا تحفظ اور سہارا بنتی ہے، اور اگر اسے انا، غصے یا تسلط کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے، تو اب نظام بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس آیتِ مبارکہ کو صرف ترجمہ تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اس کے پس منظر، حکمت، عدل اور شریعت کی روح کو سمجھیں اور اپنی زندگیوں میں نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق قوامیت کو محبت بھری ذمہ داری کے طور پر اپنائیں۔
قوامیت کا یہ تصور ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ اسلامی خاندان کا ڈھانچہ ذمہ داری، انصاف اور باہمی محبت پر قائم ہے، نہ کہ طاقت کے غلط استعمال یا مردانہ تسلط پر۔ قوام بننے کے لیے مرد کو خود بھی اعلیٰ اخلاق، دیانت، علم، فہم اور صبر سے آراستہ ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ اپنی بیوی، بچوں اور خاندان کی بہتر رہنمائی کر سکے۔ نبی کریم ﷺ نے خود سب سے بہترین شوہر اور باپ بن کر قوامیت کی عملی مثال قائم کی۔ آپ ﷺ نے کبھی اپنی ازواج پر سختی نہیں فرمائی، بلکہ ان کے جذبات کو سمجھا، ان سے مشورہ لیا اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک فرمایا۔ آپ ﷺ کا یہ اسوۂ حسنہ قیامت تک ہر مسلمان مرد کے لیے معیار اور نمونہ ہے۔
افسوس کہ آج کے دور میں قوامیت کا مفہوم بگاڑ دیا گیا ہے۔ بعض مرد اس شرعی اصطلاح کو عورت پر حاکمیت، برتری یا جبر کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ کچھ خواتین اس کے اصل مفہوم کو سمجھے بغیر اسے صنفی امتیاز تصور کرتی ہیں۔ یہ دونوں رویے قوامیت کے اسلامی تصور سے انحراف ہیں۔ مرد کو قوامیت کے بدلے میں صرف اختیار نہیں، بلکہ سوال و جواب کی بڑی ذمہ داری دی گئی ہے۔
حدیثِ نبوی ﷺ ہے:
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (بخاری :۸۹۳ و مسلم: ۱۸۲۹)
ترجمہ: تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے، اور ہر نگہبان سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
لہٰذا، قوامیت کا درست فہم معاشرے میں عدل، سکون، تحفظ اور محبت کے رشتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ مرد کو چاہیے کہ وہ قوامیت کے منصب کو اللہ کی امانت سمجھ کر نبھائے اور عورت کو چاہیے کہ وہ اس ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے شوہر کے ساتھ خیر، محبت اور وفا کا تعلق قائم رکھے۔ یہی وہ فہم اور عملی رویہ ہے جو ایک مضبوط، باوقار اور اسلامی گھرانے کی بنیاد بنتا ہے۔
اے اللہ! ہمیں دین کی صحیح سمجھ، شریعت کی عظمت، قوامیت میں عدل، سنت سے محبت عطا فرما، اور ہمارے گھروں کو سکون اور رحمت کا مرکز بنا دے۔ آمین یا رب العالمین۔