عنوان: | یومِ ولادت۔۔۔۔۔لحظۂ نعمت |
---|---|
تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
جب روح قفسِ خاکی میں آئی، کائنات نے ایک اور امانت کے آنے کی خبر پائی، زمین نے اپنی وسعت میں جگہ پیدا کی، ماں کی گود نے محبت کی چادر بچھائی، اور وقت کے صفحے پر ایک نئی تحریر رقم ہونے لگی۔
فضا میں ایک زندگی نے سانس لی، لیکن خود وہ زندگی بےخبر تھی کہ کیوں لائی گئی ہے؟ آنکھ کھلی، مگر شعور نہیں جاگا، قدم چلے، مگر راستے کی سمت معلوم نہ تھی۔ محبتوں کا لمس، خوشبوؤں کی آغوش، صداؤں کی گونج سب کچھ تھا، مگر معنی سے خالی۔
پھر وقت گزرا، عقل نے دروازہ کھٹکھٹایا، فکر نے سوال اٹھایا، اور شعور نے دھیرے دھیرے پردے ہٹانے شروع کیے۔پھر دل کے اندر ایک صدا گونجی: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ تب جا کر سمجھ آنے لگا کہ یہ زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں؛ یہ آنکھیں صرف مناظر دیکھنے کے لیے نہیں؛ یہ زبان صرف بات کرنے کے لیے نہیں، بلکہ یہ سب کچھ اس واحد خالق کی بندگی اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے ہے۔
تب دل نے عہد باندھا کہ زندگی کو بندگی میں ڈھالنا ہے۔ اب سمجھ آ چکا تھا کہ دنیا میں آنا کوئی حادثہ نہیں، بلکہ ایک امانت ہے، ایک ذمہ داری ہے، اور ایک راستہ ہے اللہ کی طرف واپسی کا۔
جب نگاہ نے پہلا حرف پہچانا، اور دل نے پہلی بار سطر میں چھپی روشنی کو محسوس کیا۔۔۔۔۔تو ایک نیا جہاں کھلنے لگا۔۔۔۔۔جہاں ہر نکتہ، ہر لفظ، ہر مفہوم۔۔۔۔۔ایک چراغ تھا، جو دل کی گہرائیوں میں علم کی روشنی بکھیرتا رہا۔
یہ علم۔۔۔۔۔محض معلومات نہیں ہے، یہ تو وہ خزانہ ہے جس نے سوچوں کو وسعت دی، الفاظ کو وقار بخشا، فہم کو بیداری دی، اور شعور کو بندگی کے دروازے تک لا کھڑا کیا۔
یہ عقل۔۔۔۔یہ سمجھ۔۔۔۔یہ غور و فکر کی قوت۔۔۔۔۔یہ دین کی باریک سطور کو پڑھنے کی توفیق۔۔۔۔یہ سب۔۔۔۔۔کیا یہ کسی ذاتی لیاقت کا حاصل ہے؟ ہرگز نہیں! یہ تو رب کریم کی عطا ہے۔
اب یہ علم صرف ذہن میں نہیں، یہ تو خون میں گھل گیا ہے۔۔۔۔سوچ میں رچ گیا ہے۔۔۔۔۔۔زندگی کی راہ متعین کر چکا ہے۔ یہی شکر ہے۔۔۔۔۔کہ عطا کو پہچان لیا گیا۔۔۔۔۔اسی کو مقصدِ زیست مان لیا گیا۔۔۔۔اور علم کو امانت جان کر پھیلانے کا عزم کر لیا گیا۔
آج جب زندگی کے سفر کا ایک اور سال مکمل ہوا، تو دل سب سے پہلے اُسی در کی طرف لپکا، جہاں سے یہ سانسیں، یہ لمحے، یہ سب کچھ ملا۔
شکر ہے اُس ذات کا، جس نے اندھیروں میں بھٹکنے نہیں دیا، جس نے جہالت کے جنگل سے نکال کر علم کی روشنی سے آشنا کیا۔ آج جب آئینہ دیکھا تو اس میں محض وجود نہیں، اس کی عطاؤں کا ایک ہنستا بستا مجموعہ نظر آیا، سر سے پاؤں تک اُس کا فضل ہی تو ہے۔
اِس دن، جب دنیا خوشی مناتی ہے، مجھے یومِ پیدائش شکر کا دن لگاتا ہے، اس لئے نہیں کہ ہم پیدا ہوئے، بلکہ اس لیے کہ اس نے ہمیں ایک قیمتی زندگی دی، اور پھر اُسے جینے کا سلیقہ بھی سکھایا۔ شکر ہے اس رب کا جس نے سانس دی، پھر اُن سانسوں میں احساس رکھ دیا۔ جس نے زندگی دی، اور ساتھ ہی شعور بخشا کہ یہ زندگی کا مقصد کیا ہے۔
اب ہر لمحہ معنی رکھتا ہے، ہر دن ایک صفحہ ہے اس تحریر کا جو روح کے ساتھ نازل ہوئی تھی، اور ہر سال جو گزرتا ہے، وہ بس یہ یاد دلاتا ہے کہ اب فرصت کم رہ گئی ہے، اور منزل قریب آ رہی ہے۔
اے خالق کائنات! ہماری زندگی کو اتنی مہلت دے کہ ہم اپنے آنے کا مقصد پورا کر سکیں، اور جاتے ہوئے کچھ ایسا چھوڑ جائیں جو قیامت کے دن ہمارے لیے روشنی کا سبب بنے۔ آمین یا رب العالمین۔