عنوان: | ہدایہ کی تدریس میں دو علمی لمحے |
---|---|
تحریر: | مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی، ٹٹلا گڑھ، اڈیشہ |
علم دین کی خدمت ایک عظیم سعادت ہے اور تدریس کا منصب ایسا آئینہ ہے جس میں استاد خود بھی ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ میرا تدریس کا شاید دوسرا سال تھا، جب اللہ تعالیٰ نے مجھے نیپال کے جامعۃ المدینہ میں ہدایہ کی تدریس کی سعادت بخشی۔ ان دنوں میں کتاب الطلاق پڑھا رہا تھا۔ ایک روز سبق کے دوران ایک نکتہ آیا جس پر میری علمی آزمائش ہوئی اور ساتھ ہی طلبہ کے ذوقِ علمی پر رشک بھی۔
مسئلہ یہ تھا کہ اگر کوئی شوہر عورت کے ایسے اعضاء کی طرف نسبت کر کے طلاق دے جن سے مکمل وجود مراد لیا جاتا ہو، تو طلاق واقع ہو جائے گی، جیسے: رأسك طالق یا عنقك طالق مگر اگر نسبت ایسے عضو کی طرف ہو جس سے کل مراد نہ لیا جاتا ہو، جیسے: یدك طالق یا رجلك طالق تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
یہ سنتے ہی ایک ذہین طالب علم نے سوال اٹھایا: استاذ محترم! یدك طالق سے طلاق کیوں نہیں پڑے گی؟ قرآنِ مجید میں تو 'ید' سے مکمل ذات مراد لی گئی ہے، جیسے: تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ اور وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَة
یہ اعتراض سن کر میں لمحہ بھر کو خاموش ہو گیا، کیونکہ میرے پاس فی الفور کوئی تسلی بخش جواب نہ تھا۔ میں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کیا، جو کہ ایک معلم کے لیے عیب نہیں بلکہ علم کا دروازہ کھولنے کی کنجی ہے۔ میں نے اپنی دستیاب عربی شروح، حواشی و تعلیقات مثلاً عنایہ اور فتح القدیر، کا مطالعہ کیا، مختلف کتب کھنگال ڈالیں، لیکن جواب نہ مل سکا۔
آخرکار، میں نے اپنے استاذِ محترم، محقق مسائل جدیدہ، سراج الفقہاء حضرت مفتی نظام الدین صاحب قبلہ سے رابطہ کیا۔ میں نے جب ان کے سامنے سوال رکھا، تو حضرت نے فوراً نہایت نپے تلے انداز میں فرمایا: قرآنِ مجید میں تثنیہ اور جمع کے ساتھ ذات مراد ہوئی ہے۔
یہ مختصر مگر جامع بر جستہ جواب میرے دل کو ایسا لگا جیسے خزانے کی چابی مل گئی ہو۔ بعد میں مجھے بنایہ شرح ہدایہ میں اسی بات کی تائید بھی مل گئی، جس سے دل کو مزید اطمینان نصیب ہوا۔
میرا تدریسی سفر تیسرے سال میں داخل ہو چکا تھا۔ غالباً ان دنوں میں ہدایہ آخرین کا کوئی سبق پڑھا رہا تھا۔ رات کو سبق کی تیاری کے دوران ایک مسئلہ پر نظر پڑی، جسے صاحبِ ہدایہ نے اپنی مخصوص فقہی انداز میں بیان کیا تھا۔ اس وضاحت پر میرے ذہن میں ایک اعتراض پیدا ہوا۔ پہلے میں نے خود ہی جواب سوچنے کی کوشش کی، مگر کافی غور و فکر کے باوجود کوئی واضح پہلو سامنے نہ آیا۔
میں نے مسئلہ حل کرنے کے لیے ہدایہ کی جتنی عربی شروحات میرے پاس موجود تھیں، سب کھول ڈالیں۔ فقہ حنفی پر لکھی ہوئی مزید آٹھ دس کتابیں بھی اس نیت سے دیکھیں کہ شاید کسی شارح یا فقیہ نے اس اعتراض کا جواب دیا ہو۔ لیکن افسوس، قصور فہم و قصور نظر، تسلی بخش جواب نہ ملا۔
خیر، صبح درسگاہ میں سبق دینے کے لیے بیٹھا۔ طلبہ کو مکمل توجہ سے سبق سمجھایا۔ جب اس خاص مقام پر پہنچا جس پر مجھے شب میں تشویش رہی، وہاں بھی میں نے صاحب ہدایہ کی عبارت اور ان کی مراد اچھی طرح واضح کر دی۔ جیسے ہی میں اس عبارت سے آگے بڑھنے لگا، ایک طالب علم نے ہاتھ اٹھایا اور کہا: استاذِ محترم! ایک اعتراض ذہن میں آ رہا ہے۔
میں مسکرا کر مسند سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا، کیونکہ میں سمجھ گیا کہ اس ذہین طالب علم کے ذہن میں بھی وہی اعتراض پیدا ہو چکا ہے جس نے کل رات مجھے الجھا رکھا تھا۔
میں نے نرمی سے کہا: فرمائیے!
طالب علم نے ہوبہو وہی اعتراض بیان کر دیا۔ اس کی بات سن کر میں نے ایک سرد آہ بھری اور کہا: اس اعتراض کا جواب تلاش کرنے میں میں نے رات تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے گزارے ہیں۔ دس سے زائد کتابیں دیکھ ڈالیں، لیکن جواب نہ ملا۔ پھر میں نے اپنے ذہن کو اپنے استاذِ محترم حضرت مفتی بدر عالم صاحب قبلہ کی طرف متوجہ کیا کیوں کہ حضرت ہی سے میں نے ہدایہ آخرین پڑھی تھی۔ دل ہی دل میں ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔
یقین جانیں، ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وہ جواب میرے ذہن میں القا ہو گیا۔ میں نے وہی جواب درجے ہی میں بیان کر دیا۔ ساتھ ہی طلبہ کو یہ بھی بتایا کہ ایک طرف رات بھر کی محنت، تلاش اور مطالعہ ہے، اور دوسری طرف استاذِ محترم کی طرف دلی توجہ، ادب اور فیض کی طلب
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنے بڑوں، اساتذہ، مشائخ اور علماء کے ادب و احترام میں رکھے، انہی کے وسیلے سے علم و معرفت کے دروازے کھلتے ہیں، اور وہی زندگی کی اصل روشنی ہیں۔