عنوان: | یہی سچی محبت ہے |
---|---|
تحریر: | غوثیہ واسطی احمدی |
جمعہ کا دن تھا اچانک دربازے کی بیل بجی میں نے جالی سے جھانک کر دیکھا تو اک چھوٹا بچہ تھا تو میں نے دروازہ کھولا جیسے میں نے دروازہ کھولا اس بچے نے مجھ سے اللہ کا نام لے کر کچھ پیسوں کا مطالبہ کیا، میں نے کہا: بیٹا رکو! میں ابھی اندر سے پیسے لے کر آتی ہوں، میں پیسے لیکر آئی اس کو دئیے ٹھیک دوپہر کا وقت تھا ساتھ ہی کھانے کا بھی پوچھا تو اس نے کھانا کھانے کے لئیے اقرار کیا وقت کی بات اس دن کھانے میں بریانی بنی ہوئی تھی میں نے رب کا شکر کیا مولی تیرا شکر کھانے میں بریانی۔
میں نے اپنی بہن سے کہا آپی لے آئیے کھانا بچے کے لئیے آپی جب کھانا نکالنے گئیں اس درمیان میں نے اس بچے سے کہا تم اتنے چھوٹے ہو بیٹا اکیلے آۓ ہو؟ اس بچے نے کہا نہیں میری امی ساتھ ہیں میں نے کہا وہ کہاں ہیں اس نے کہا آگے والی گلی میں اتنے میں میری بہن کھانا لے کر آگئیں اور ہم دونوں اس بچے سے اصرار کرنے لگے اندر آکر آرام سے بیٹھ کر کھانے کا لیکن وہ بچہ مسلسل انکار کرتا رہا کہ میں یہی کھالوں گا ہم نے کہا ٹھیک ہے تو یہیں کھا لو پھر آپی نے کہا چلو اندر آجاؤ شاید وہ شرم کی وجہ سے صحیح سے نہ کھا پاۓ۔ تو ہم لوگ اتنا کہہ کر کہ اگر کچھ ضرورت ہو تو بلا لینا بیٹا ہم اندر ہی ہیں چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعد میرے دل کو تسلی نہ ہوئی میں نے سوچا جا کر دیکھوں شاید بچے کو ضرورت ہو جب میں دروازہ پر پہنچی تو دیکھا وہ کھانے کی پلیٹ اور پانی کا گلاس لئیے خوب تیز دوڑتا جارہا ہے اور پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا جا رہا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا جب میں نے اسے ایسا کرتے دیکھا تو پہلے تو میں حیرت میں رہی یہ ایسا کر کیوں رہا ہے در حالانکہ یہ بریانی کی پلیٹ تو ہم نے اسے خود ہی دی ہے پھر مجھے خیال آیا ہاں اس نے بتایا تھا کہ میری ماں ساتھ آئی ہے تو اس ننھی سی جاااااااااااااااااااان کو ماں کی محبت و فکر نے ایسے کرنے پر ابھارا کہ(جیسے مجھے بھوک لگی ہے میری ماں کو بھی لگی ہوگی) پھر میں اس کو آواز دینے لگی بیٹا اس میں اور لے جاؤ یہ کم ہے لیکن اس نے نہیں سنا اور گلی مڑ گیا۔
یہ واقعہ میری آنکھوں کو اشکبار کر گیا۔ اور میرے دل نے کہا: یہی سچی محبت ہے۔ اور جب سے اب تک جب بھی مجھے یہ خیال آتا ہے میرا دل عجیب حرکت کرنے لگتا ہے۔
اور آج بھی جمعہ ہے۔