عنوان: | اس بار 1500 سالہ جشن کے نام پر یہ بھی ہوا!! |
---|---|
تحریر: | افضال احمد |
پیش کش: | ادارہ لباب |
ابھی چند روز قبل 1500 سالہ جشنِ ربیع النور عاشقانِ رسول نے بڑے جوش و خروش اور دھوم دھام سے منایا، لیکن اسی کے ساتھ کچھ ایسی خرافات بھی سامنے آئیں جن کو دیکھ کر دل دہل گیا، کہیں لوگ ڈانس کرتے دکھائی دیے، کہیں سینگوں والا ہرا جن اسٹیج پر بیٹھا نظر آیا، تو کہیں ہندوؤں کے کاور جلوس کی طرح بڑے بڑے ڈی جے پر عجیب و غریب حرکات ہوتی رہیں، کچھ جگہوں پر خواتین جلوسِ عام میں گنگناتی اور ناچتی دکھائی دیں، دھوم دھڑاکے، باجے تاشے، نقارے اور ڈھول کی بیٹ پر ٹھمکے لگتے رہے، بعض جگہوں پر مجرا اور رقص کے مظاہرے کیے گئے اور یہ سب کچھ آمد مصطفیٰ ﷺ کے نام پر ہوا۔
کچھ افراد تو یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ اگر کوئی عشق میں جھومے تو پورے سال کا ثواب ملے گا، اسی طرح "ناگن ڈانس" تک دیکھنے کو ملا، مزارات کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جہاں خواتین نے مزار کے احاطے کو سرکس بنا دیا اور اچھل کود اور قلابازیاں لگاتی رہیں، بعض جگہ پیر صاحب کے سامنے ڈانس کے نئے اسٹیپس متعارف کرائے گئے، کہیں "دلہن والے بابا" دلہن کا لباس پہنے چوڑیاں ہاتھ میں ڈالے نظر آئے اور کہیں اس سے بھی زیادہ حیران کن مناظر دیکھنے کو ملے۔
اسی طرح گزشتہ ماہ محرم الحرام میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے جنہیں دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے، ایسی بے حرمتی اور خرافات جن کا نہ پہلے کبھی تصور تھا اور نہ ہی سننے میں آیا، یہ سب کچھ دیکھ کر یقیناً دل کڑھتا ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کو آخر یہ رخ کس نے دکھا دیا، یہ سب تماشے اس وقت ہوتے ہیں جب عوام علم اور علما سے دور ہو جائیں، جب دین کا حقیقی شعور باقی نہ رہے اور جب اصلاح کی محافل خاموش ہو جائیں، دنیا کے ہر معاشرے میں جب جہالت کا اندھیرا بڑھتا ہے تو خرافات اور بے جا رسومات پروان چڑھتی ہیں اور یہی حال آج ہمارے معاشرے کا ہے کہ ایک بڑا طبقہ ان خرافات سے بے خبر ہے اور جب تک غفلت میں رہتا ہے مطمئن رہتا ہے لیکن جیسے ہی حقیقت سامنے آتی ہے تو بے چینی بڑھتی ہے اور علاج کی جستجو شروع ہو جاتی ہے۔
گزشتہ برسوں میں بڑے بڑے اعراس میں شرکت کا موقع ملا، عرس رضوی، عرس حضور تاج الشریعہ، عرس حضور حافظ ملت، عرس بلگرام شریف اور کئی دیگر مقامات پر حاضری رہی لیکن دل کو دکھ یہ ہوا کہ ان اجتماعات میں کہیں بھی ان غلط رجحانات اور خرافات پر بات نہیں کی گئی۔
اگر علما و مشائخ خاموش ہیں تو حسن ظن یہی کیا جا سکتا ہے کہ شاید وہ صورت حال سے پوری طرح واقف نہیں لیکن یہ خاموشی اصل نقصان کو بڑھا رہی ہے اور اس کی جڑ عوام الناس کا "علم اور علما سے دور ہونا" ہے، یہ جملہ بظاہر آسان ہے لیکن حقیقت میں ایک پوری تاریخ اور کئی اسباب اس کے پیچھے ہیں۔
مدارس موجود ہیں لیکن ان میں وہی آتا ہے جو تعلیم کے ارادے سے داخل ہو، جلسے بھی ہوتے ہیں لیکن وہ چند گھنٹوں کے لیے مخصوص جگہوں پر محدود رہتے ہیں، تحریر و تصنیف بھی ایک ذریعہ ہے مگر وہ بھی انھی لوگوں تک پہنچتی ہے جو پڑھنے کے خواہش مند ہوں، اس لیے عوامی سطح پر علم کا فیضان نہیں پہنچ پا رہا۔
اگر خانقاہیں اور مزارات کے ذمہ داران علمی اور اصلاحی طور پر فعال ہوتے تو یہ سب سے مؤثر ذریعہ ہوتا لیکن بدقسمتی سے یہ نظام بھی کمزور ہے، اس لیے اصلاح کے لیے ہمیں صرف ایک دو راستوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر ممکن راستے سے کام کرنا ہوگا، جیسے کسی گاؤں میں چور گھس آئیں تو صرف ایک دروازہ بند کرنا کافی نہیں بلکہ ہر راستہ بند کرنا پڑتا ہے تاکہ خطرہ ٹلے، اسی طرح ہمیں مختلف ذرائع کو بیک وقت استعمال میں لانا ہوگا۔
- گھروں اور دفاتر میں چھوٹی چھوٹی روحانی محفلیں منعقد کی جا سکتی ہیں۔
- خواتین کے لیے الگ نشستیں ہوں۔
- نوجوانوں کے لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر تربیتی پروگرام ہوں۔
- بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے ویک اینڈ کلاسز رکھی جائیں۔
- سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز پر عام فہم اور مثبت مواد ڈالا جائے۔
- چھوٹے رسائل، کتابچے اور مضامین کے ذریعے تحریر و تصنیف کو آسان زبان میں عوام تک پہنچایا جائے۔
- مطالعہ کلچر کو فروغ دینے کے لیے لائبریریاں اور سستے کتابی اسٹالز قائم ہوں۔
- سوشل میڈیا اور مقامی چینلز کے ذریعے اصلاحی پیغام عام کیا جائے۔
- سوال و جواب کے سیشن منعقد ہوں تاکہ عوام اپنی غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکیں۔
- مساجد کو صرف نماز تک محدود رکھنے کے بجائے تعلیمی اور تربیتی مراکز بنایا جائے۔
- اصلاحی ڈرامے اور شارٹ فلمز تیار کی جائیں تاکہ نئی نسل آسانی سے متاثر ہو۔
علما کو چاہیے کہ مثبت رویہ اپنائیں، سختی کے بجائے محبت اور حکمت سے بات کریں اور عوام کو قریب کریں، اپنی عملی زندگی میں سادگی اور سنت کی پیروی کے نمونے پیش کریں تاکہ لوگ متاثر ہوں، رفاہی ادارے اپنی عوامی خدمت کے ساتھ ساتھ اصلاحی پیغام کو بھی عام کریں، علما کے درمیان یکجہتی ہو تاکہ عوام کو الجھن نہ ہو اور خرافات کے خلاف مشترکہ موقف سامنے آئے، قومی اور مقامی زبانوں میں آسان اور سادہ انداز اختیار کیا جائے تاکہ بات سب تک پہنچے.
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صرف ایک بار پیغام دینے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ مسلسل رابطہ اور فالو اپ رکھا جائے تاکہ نصیحت دل میں اترے اور قائم رہے، جب یہ سب ذرائع بیک وقت اور مربوط انداز میں استعمال ہوں گے تو یقیناً عوام کو دوبارہ علم و علما سے قریب کیا جا سکے گا، خرافات کا سدباب ہوگا اور معاشرہ علم و عمل کی روشنی سے منور ہوگا۔
خرافاتی ویڈیوز کے لنکس:
https://www.instagram.com/reel/DJk9OyHoFDi/?igsh=MTNodTd3ZGtzdTBmZg==https://www.instagram.com/reel/DOBEarNDAhH/?igsh=MWkxMm1ibWpsMGRh
https://www.instagram.com/reel/DNcGeunouPS/?igsh=eXQxb3J3aGt1cHU5
https://www.instagram.com/reel/DOPkwMhj3H3/?igsh=ZmpkNnltcHgwbDR3
https://www.instagram.com/reel/DLtwmotv6mX/?igsh=aHI2Nm11cW8wbXly
https://www.instagram.com/reel/DOIB87VkkmC/?igsh=NGRwejA0eWVybXZs
https://www.instagram.com/reel/DKFDPiiznhw/?igsh=MWtnbnl4a205aHl1eA==
https://www.instagram.com/reel/DNp6pvsx2p_/?igsh=emdvODBpdWoxdGZj
https://www.instagram.com/reel/DOTJKXmjF3H/?igsh=MXFrZDlmZ2NtMDUxNg==
https://www.instagram.com/reel/DOOLsO7gSCs/?igsh=MTJ3MGNzY250MHo0bw==
https://www.instagram.com/reel/DJk9OyHoFDi/?igsh=MTNodTd3ZGtzdTBmZg==