| عنوان: | اسلام اور انسانی حقوق کا جامع تصور |
|---|---|
| تحریر: | سید کاشف حسین جیلانی قادری |
جب میں نے اس عنوان پر قلم اٹھایا تو دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ انسانی حقوق کا تصور، جو آج کل ہر زبان پر ہے، کیا واقعی اتنا سادہ ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں؟ یا پھر اس کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک ایسی روشنی کی ضرورت ہے جو صدیوں پرانی حکمت سے نکلتی ہو؟ اسلام، میرا دین، میری رہنمائی کا سرچشمہ، اس سوال کا جواب ایک ایسی خوبصورتی سے دیتا ہے کہ دل مطمئن ہو جاتا ہے۔ یہ مقالہ محض ایک تحریر نہیں، بلکہ میری ایک ایمان افروز فکر، ایک جستجو اور ایک دعوت ہے کہ ہم سب مل کر اس عظیم تصور کو سمجھیں اور اسے دنیا کے سامنے پیش کریں۔
اسلام کی روشنی میں انسانی حقوق
جب ہم "انسانی حقوق" کا لفظ سنتے ہیں، تو ذہن میں آزادی، مساوات اور انصاف کے تصورات آتے ہیں۔ مگر اسلام ان سے کہیں آگے کا سفر طے کرتا ہے۔ قرآن مجید کی یہ آیت میرا دل ہمیشہ موہ لیتی ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ [الإسراء:70]
یہ الفاظ صرف ایک حکم نہیں، بلکہ ایک وعدہ ہیں کہ ہر انسان، خواہ وہ کسی بھی رنگ، نسل یا مذہب سے ہو، بحیثیت انسان عزت کا مستحق ہے۔ یہ عزت کوئی سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ ایک روحانی حقیقت ہے جو ہر انسان کو اس کے خالق سے جوڑتی ہے۔
- زندگی کا حق:
اسلام میں انسانی جان کی حرمت کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اسے پوری انسانیت سے جوڑ دیا گیا۔ قرآن کہتا ہے:
وَمَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا [المائدة:32]
جب میں اس آیت پر غور کرتا ہوں، تو دل میں ایک عظیم ذمہ داری کا احساس جاگتا ہے۔ یہ صرف قانون کی بات نہیں، بلکہ ایک ایسی سوچ ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے مدینہ میں یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ معاہدے کیے، جن میں ان کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کی بات کی گئی۔ کیا یہ ہمارے لیے ایک عظیم مثال نہیں؟
- مساوات:
ہمارے پیارے نبی صلى الله تعالیٰ عليه وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا:
ترجمہ: اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے۔ کوئی عربی عجمی پر، نہ عجمی عربی پر، نہ گورا سیاہ پر، نہ سیاہ گورے پر برتری رکھتا ہے، سوائے تقوى کے۔
یہ الفاظ سن کر میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ آج جب دنیا نسل پرستی اور طبقاتی تقسیم سے لڑ رہی ہے، اسلام صدیوں پہلے ایک ایسی مساوات کا درس دے چکا ہے جو نہ صرف عالمگیر ہے بلکہ عملی طور پر قابل عمل بھی۔ یہ کوئی فلسفیانہ نظریہ نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے خلفاء راشدین نے اپنے دور میں عملی جامہ پہنایا۔
- آزادیِ فکر و عقیدہ:
جب میں نے مغرب کے انسانی حقوق کے چارٹرز پڑھے، تو مجھے لگا کہ آزادی کا تصور شاید وہاں سے شروع ہوتا ہے۔ مگر پھر قرآن کی یہ آیت میرے سامنے آئی:
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ [البقرة:256]
یہ الفاظ ایک انقلاب ہیں۔ یہ ہر انسان کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی آزادی دیتے ہیں۔ نبی اکرم صلى الله تعالیٰ عليه وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کیا، انہیں اپنے گرجا گھروں میں عبادت کی اجازت دی، حتیٰ کہ مسجد نبوی میں ان کے وفد سے ملاقات کی۔ کیا یہ وہ آزادی نہیں جو آج ہر معاشرہ مانگتا ہے؟
- عورتوں کے حقوق:
جب میں عورتوں کے حقوق پر غور کرتا ہوں، تو اسلام کی عطا کردہ عزت دل کو چھو لیتی ہے۔ اس وقت جب عورتیں دنیا کے کئی حصوں میں اپنی شناخت کے لیے لڑ رہی تھیں، اسلام نے انہیں وراثت، تعلیم، اور معاشرتی کردار کا حق دیا۔ سورۃ النساء میں عورتوں کے حقوق کی تفصیلات پڑھ کر میرا ایمان مزید پختہ ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان کہ: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرے، آج بھی صنفی مساوات کا ایک روشن مینار ہے۔
- معاشی انصاف:
اسلام میں زکوٰة کا نظام مجھے ہمیشہ حیران کرتا ہے۔ یہ صرف ایک عبادت نہیں، بلکہ ایک ایسی معاشی پالیسی ہے جو غربت کو جڑ سے ختم کر سکتی ہے۔ جب میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنه کے دور کی فلاحی ریاست کے قصے پڑھتا ہوں، جہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا، تو دل میں ایک عظیم معاشرے کا خواب جاگتا ہے۔ کیا ہم آج اس نظام کو اپنا کر دنیا سے غربت ختم نہیں کر سکتے؟
- اسلام اور جدید انسانی حقوق:
جب میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیے کو پڑھتا ہوں، تو اس کی قدر کرتا ہوں۔ مگر اسلام کا تصور اس سے کہیں گہرا ہے۔ جہاں مغرب انفرادی آزادی پر زور دیتا ہے، وہاں اسلام انفرادی اور اجتماعی حقوق کے درمیان توازن سکھاتا ہے۔ مغربی تصورات میں آزادی بعض اوقات حدود سے آزاد ہو جاتی ہے، مگر اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ آزادی ایک ذمہ داری ہے۔ یہ تصور نہ صرف مادی بلکہ روحانی ترقی کا بھی ضامن ہے۔
تاریخی گواہی
جب میں میثاق مدینہ کا مطالعہ کرتا ہوں، تو دل میں فخر کا احساس جاگتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا تحریری آئین تھا، جو ایک کثیر المذاہب معاشرے میں مساوات اور امن کی بنیاد رکھتا تھا۔ اسی طرح، جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنه نے بیت المقدس فتح کیا، تو انہوں نے غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کی ایسی مثال قائم کی جو آج بھی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔
آج کے دور میں مطابقت
آج جب دنیا جنگ، غربت اور ناانصافی سے لڑ رہی ہے، اسلام میں انسانی حقوق کا تصور ایک امید کی کرن ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے حقوق کی حفاظت کریں، کمزور کی مدد کریں اور ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں سب کے لیے انصاف ہو۔ زکوٰة کا نظام ہو یا مساوات کا درس، یہ سب آج بھی عالمی مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔
یہ مقالہ لکھتے ہوئے میں نے اپنے دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا کہ اسلام میں انسانی حقوق کا تصور صرف ایک نظریہ نہیں، بلکہ ایک عملی راہ ہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں ہر انسان عزت، انصاف اور محبت سے جئے۔ آئیے، ہم سب مل کر اس تصور کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں، تاکہ ایک پرامن اور منصفانہ معاشرہ قائم ہو۔
