دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

پندرہ سو سالہ جشن ولادت سے ہم نے کیا حاصل کیا؟

پندرہ سو سالہ جشن ولادت سے ہم نے کیا حاصل کیا؟
پندرہ سو سالہ جشن ولادت سے ہم نے کیا حاصل کیا؟
عنوان:پندرہ سو سالہ جشن ولادت سے ہم نے کیا حاصل کیا؟
تحریر:محمد رضا اشرفی باسنوی
پیش کش:دار العلوم فیضان اشرف باسنی، راجستھان

۱۲ ربیع الاول شریف ۱۴۴۷ھ بمطابق ۵ ستمبر ۲۰۲۵ء کو پوری دنیا کے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب دھوم دھام سے جلوس نکالے، اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کیا، اور نعرۂ تکبیر و نعرۂ رسالت سے اپنے دلوں کو منور کیا۔ اس سے پہلے کثیر تعداد میں محبانِ رسول نے بارہ روز تک محافل بھی قائم کیں، اپنے گھروں کو سجایا، لنگر و سبیل کا اہتمام کیا۔ لیکن کیا صرف مذکورہ کام کرنے سے بندہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کر سکتا ہے؟

آج یہی بات میرے دل میں گردش کر رہی تھی کہ کیا بے نمازی کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے سے نجات کا پروانہ حاصل ہو جائے گا؟ کیا چور، شرابی، زنا کار، سود خور وغیرہ کو میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کرنے سے نجات کا حصول ممکن ہے؟

کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے جلوس میں شرکت تو کی، مگر اسی دن انہوں نے فجر کی نماز نہیں پڑھی۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بارہ روز کی محافل میں اخلاقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل درس لیا، مگر ان میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، مگر ابھی بھی ان کے منہ پر داڑھی شریف کا ظہور نہیں ہوا۔ اور بہت سی باتیں ہیں، سب کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔

جلوس میں ایسے لوگ بھی آپ کے پیشِ نظر رہے ہوں گے جنہوں نے یہ نعرہ بڑی خوشی و مسرت کے ساتھ لگایا ہوگا کہ: غلامیٔ رسول میں موت بھی قبول ہے۔ میں ان حضرات سے عاجزانہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بھائیو! اگر موت قبول ہے، تو نماز کیوں قبول نہیں ہے؟ داڑھی کیوں قبول نہیں ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا: نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ تو امتی کے لیے حضور کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لیے اس سے بہتر کیا تحفہ ہو سکتا ہے، بالخصوص ربیع الاول کے موقع پر؟ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔ محبت کا یہ اصول ہے کہ محب اپنے محبوب کی ہر بات کے سامنے سرِ تسلیم خم کر لیتا ہے۔ تو ایک طرف آپ عشقِ رسول کے دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسِ پشت ڈالتے ہیں۔ یہ کہاں کی محبت؟

نہ ہم نے اخلاقِ مصطفیٰ سے فیض اٹھایا، نہ ہم عظمتِ مصطفیٰ کو سمجھ سکے، نہ ہم نے تعلیمِ مصطفیٰ کو اختیار کیا۔ بس جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کو ہم دخولِ خلد کا ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں۔ بات جنت کی نہیں ہے، اصل بندہ تو وہ ہے جو رضاے الٰہی کی خاطر عبادت کرے، نہ کہ دخولِ جنت کے لیے اور نہ خروجِ دوزخ کے لیے۔ حالانکہ یہ بھی بہت اچھی بات ہے، لیکن اعلیٰ درجے کی عبادت وہی ہے جو حصولِ رضاے الٰہی کے لیے ہو۔

تو میں واپس مقصد کی طرف آتا ہوں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہم عید ضرور منائیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عید ہی نہ منائیں، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ بہت دھوم دھام سے منائیں، لیکن اپنی زندگی میں سیرتِ مصطفیٰ کو داخل کریں اور ہر وقت رضاے الٰہی و رسول کو پانے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں فتنہ و فساد سے بچائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں