| عنوان: | اعتبار کی چوٹ |
|---|---|
| تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
| پیش کش: | ادارہ لباب |
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
زندگی کی دھوم، رعنائیاں، خوش خرامی، زیبائی، نغمگی سب احباء کے دم سے ہے۔ ہماری زندگی میں شامل احباب ہماری زندگی کا حسن ہوتے ہیں، جو ہماری حیات میں گہرا رنگ بھرتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ زندگی مسافر خانہ ہے، لوگ آپ کی زندگی میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، یہاں کسی کے لیے قرار نہیں۔
مگر کبھی کبھی کسی سے اس حد تک آشنائی ہو جاتی ہے کہ اس کا شمار ہمارے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں ہونے لگتا ہے۔ ہم انہیں اپنی زندگی کا لازمی جز سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارے زعم کے مطابق ہم ان کے لیے بہت خاص اور اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ حقیقت اور زعم میں فرق ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جسے ہم لائقِ اعتماد اور محبوب سمجھیں، ہم بھی اس کے لیے اسی قدر اہمیت کے حامل ہوں۔
اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ہماری امیدوں کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔ جب ہمارا زعم ٹوٹتا ہے، جب ہم اپنے اعتماد کو بکھرتا ہوا دیکھتے ہیں، تو یقینا ہم بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہماری زندگی میں یہ موڑ اس وقت آتا ہے جب لوگوں کے رویے یا لہجے یقینی طور پر آشکار کرتے ہیں کہ ہم ان کی ترجیحات میں اس مقام پر نہیں جہاں خود کو سمجھ بیٹھے تھے۔
یہ انسانی فطرت کی کمزوری ہے کہ وہ بآسانی ہر کسی پر اعتماد کر لیتا ہے بلکہ خواہی نخواہی یا غیر دانستہ طور پر لوگوں سے امیدیں خود ہی بندھ جاتی ہیں۔ اور اس سے انکار نہیں کہ امیدیں ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہیں، مگر جب بکھرتی ہیں تو زخموں کے گہرے نقوش ہمارے دلوں پر ثبت کر جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ ہماری کمزوری ہے، مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر کمزوری اپنے دامن میں طاقت کا جوہر رکھتی ہے۔
کوئی بھی تکلیف ہمیں تب تک اذیت دیتی ہے جب تک ہم حقیقت تسلیم نہیں کر لیتے۔ حقائق تسلیم ہوتے ہی اذیت ختم ہو جاتی ہے، درد و غم جاتے رہتے ہیں، تکلیف رفو ہو جاتی ہے، زخم بھر جاتے ہیں۔ لہذا حقیقت تسلیم کرنا سیکھیں!
