دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

سادگی فطرت کا حسن

عنوان: سادگی فطرت کا حسن
تحریر: مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا
پیش کش: ادارہ لباب

دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنجوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے

سادگی کیا ہے؟ سادگی حسن ہے، جمال ہے، رعنائی ہے، دل کشی ہے، زیبائی ہے۔ ایسا نغمہ ہے جو روح تک کو متأثر کرتا ہے، ایسا ساز جو دل کو سکون و اطمینان بخشتا ہے، ایسا تحفہ جو ہمیشہ بیش قیمت ہوتا ہے، ایسی شمع جس کی لَو کبھی مدھم نہیں پڑتی، ایسا پھول جس پر موسمِ خزاں اثر انداز نہیں ہوتا، ایسی خوشبو جو ماند نہیں پڑتی، یہ وہ آئینہ ہے جو کبھی گرد آلود نہیں ہوتا۔

سادگی خلوص و حسن کا وہ سمندر ہے جس کے شفاف پانی کی تہہ میں چھپے موتیوں کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ سادگی ایسا رنگ ہے جس کی دلکشی لوگوں کو مسحور کر دیتی ہے۔ یہ وہ محبت ہے جو آپ کو مکمل کرتی ہے۔ سادگی زندگی کا جوہر ہے، اور ایک ایسا راز کہ جس نے جان لیا، حیات کی گتھیاں اس نے سلجھا لیں۔

سادگی انسان کی فطرت ہے، اس کا خمیر ہے، اس کی اصل ہے، اس کی سرشت ہے۔ سادگی۔۔۔ حسن ہے تخیل کا، حسن ہے تفکر کا، حسن ہے گفتار کا، حسن ہے کردار کا، حسن ہے لہجوں کا۔

عمل میں اختیار کیا جانے والا وہ رویہ جو لایعنی اور غیر ضروری آسائشوں، راحتوں اور چکاچوند کا شکار ہونے سے بچاتا ہے۔ نفس کی بے لگام خواہشوں کو لگام پہنانے اور قناعت اختیار کرنے کا نام سادگی ہے۔ سادگی ایمان کا جز ہے اور اسلام ہمیں سادگی اور شائستگی کا درس دیتا ہے۔ سادگی ہی مومن کی طاقت ہے، اس کا ہتھیار اور اس کی قوت ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نور و نکہت سے بھری زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ ﷺ کی ہر ادا اور ہر عمل سے سادگی اور شائستگی کا حسن ٹپکتا ہے۔

آپ ﷺ کی رفتار و گفتار میں سادگی، نشست و برخاست میں سادگی، غذائیت میں سادگی، لباس میں سادگی، تعلقات میں سادگی، رہن سہن میں سادگی۔

الغرض۔۔۔ داخلی زندگی سے لے کر خارجی تک آپ کی حیاتِ طیبہ کے تمام گوشے سادگی کا نمونہ تھے۔ اور تکمیلِ اخلاق کے ضمن میں آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی مینارۂ نور کی طرح درخشاں ہے۔

حدیث شریف میں آتا ہے:

عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ ”إنما بعثت لاتمم صالح الاخلاق‏.‏“ (الأدب المفرد: 273)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے ہی مبعوث کیا گیا۔“

دوسری روایت میں ہے:

حدّثني عمر بن الخطاب قال: دخلتُ على رسولِ الله صلى الله عليه وسلم وهو على حصير، قال: فجلستُ فإذا عليه إزارٌ، وليس عليه غيره، وإذا الحصير قد أثّر في جنبه، وإذا أنا بقبضةٍ من شعيرٍ نحو الصاع، وقرظٍ في ناحيةٍ من الغرفة، وإذا إهابٌ معلّق. فابتدرت عيناي، فقال: ما يبكيك يا ابن الخطاب؟ فقلت: يا نبيَّ الله، وما لي لا أبكي، وهذا الحصير قد أثّر في جنبك، وهذه خزانتك لا أرى فيها إلّا ما أرى، وذاك كسرى وقيصر في الثمار والأنهار، وأنت نبيُّ الله وصفوته، وهذه خزانتك! فقال: يا ابن الخطاب، ألا ترضى أن تكون لنا الآخرة، ولهم الدنيا؟ قلت: بلى. (ابن ماجہ: 4153)

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک تہہ بند پہنے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ کوئی چیز آپ کے جسم پر نہیں ہے، چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے تھے، اور میں نے دیکھا کہ ایک صاع کے بقدر تھوڑا سا جو تھا، کمرہ کے ایک کونے میں ببول کے پتے تھے، اور ایک مشک لٹک رہی تھی، میری آنکھیں بھر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن خطاب: تم کیوں رو رہے ہو؟ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں کیوں نہ روؤں، اس چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے ہیں، یہ آپ کا اثاثہ (پونجی) ہے جس میں بس یہ یہ چیزیں نظر آ رہی ہیں، اور وہ قیصر و کسریٰ پھلوں اور نہروں میں آرام سے رہ رہے ہیں، آپ تو اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے برگزیدہ ہیں، اور یہ آپ کا سارا اثاثہ (پونجی) ہے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن خطاب! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ہمارے لیے یہ سب کچھ آخرت میں ہو، اور ان کے لیے دنیا میں“؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں

آج کے پر فتن دور میں اگر امتِ مسلمہ سننِ نبویہ ﷺ کی روشنی میں اپنی حیات کی زلفِ برہم کو سنوار لے تو حیاتِ ابدی کا پروانہ ملنے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور سننِ طیبہ کے خالص پانی سے وہ اپنی گلستانِ حیات کو سیراب کر لے تو اس باغ تک موسمِ خریف کو راہ یابی نہ ہو اور ایسے پھول کھلیں کہ تا قیامت مشامِ جاں کو معطر کرتے رہیں۔

مگر لامحدود ترقیات، ذرائع ابلاغ و ترسیل کی بے پناہ وسعتوں کے باوجود انسان کی زندگی اس پر تنگ ہو چکی ہے۔ وجہ صرف یہی "اسلامی احکامات اور فطرت کے خلاف طرزِ زندگی" ہے۔

اس نفسا نفسی اور ہنگامہ خیز دور میں، جہاں منفی رجحانات کی بھرمار ہے، اس میں سادگی کے خلاف تصنع اور بناوٹ والی زندگی، سبقت پسندی کے جذبے کی کارفرمائی اور مادہ پرستانہ رخ اختیار کرنے کا نتیجہ ہے۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی چاہ نے ہمیں حاصل قدروں سے بھی محروم کر دیا ہے۔ تصنع پسندی اور شوقِ خودنمائی انسان کو اعلیٰ اقدار سے نہ صرف محروم کرتی ہے بلکہ اسے پستیوں میں ڈھکیل دیتی ہے۔ تصنع اور بناؤٹی زندگی فطرت کے خلاف ہے۔

اور فطرت سے ہٹ کر زندگی زندہ کیسے رہ سکتی ہے۔۔۔؟ ہمارا غم انگیز المیہ یہی ہے کہ ہم کثیر المقصدیت کے عذاب میں مبتلا ہیں، ہم تمناؤں کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں، ہم پر آرزو پرستی کا عذاب نازل ہو چکا ہے۔

جذبۂ تفاخر اور مادیت پسندی نے ہمارے ایمان کی کشش چھین لی ہے۔ کالی گھٹاؤں کی طرح سروں پر مسلط عیش کوشی کے بادل ہمیں اپنی شناخت سے محروم کر رہے ہیں، اور جذبۂ مسابقت کی تلاطم خیز لہر ہمیں اپنی منزل سے کوسوں دور لے جا رہی ہے۔ غیر فطری مسابقت کی خواہش ہمارے غیر متزلزل ایمانی چٹان میں دراڑیں ڈالنے کا کام کر رہی ہے۔

اور ستم در ستم یہ کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہے۔ ہم اس وبا کے بحرِ ظلمات میں اتنے دور نکل گئے ہیں کہ ہمیں اپنے ہی اندر کی دنیا نہیں دکھ رہی ہے۔ ہم اپنی روح کے تقاضوں کی عدم تکمیل کا شور نہیں سن پا رہے۔۔۔ یقینا یہی بے بسی ہے، لاچارگی ہے، دانستہ بے بسی، جسے ہم نے خود اپنے لیے منتخب کیا ہے۔

چوں کہ مادیت پرستی کی وبا فکرِ آخرت سے بے خبر کرتی ہے، اس لیے معنوی حقیقتوں کا ذوق آشنا کبھی بھی مادی اشیاء میں لطف اندوزی کا قائل نہیں ہو سکتا۔ اللہ کے پسندیدہ اور محبوب بندوں کے لیے ظاہری اور مصنوعی رونقیں اس کی اندرونی دنیا کو بکھیرنے کا سامان ہوتی ہیں، جس سے وہ ہمیشہ کنارہ کش رہتا ہے، سادگی کا لبادہ اپنے جسم پر ہمیشہ اوڑھے رکھتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ جیسے ہی اس نے سادگی کا دامن چھوڑا، اس کی روحانیت قاش قاش ہو کر رہ جائے گی۔

سادگی ہی مومن کی زندگی ہے جو اسے عبدیت کا احساس دلاتی ہے، ورنہ فرعون و قارون اور بڑے بڑے اہلِ ثروت کا انجام کسی ذی شعور پر مخفی نہیں۔ آئیں، ہم اپنی غیر فطری زندگی سے توبہ و استغفار کریں، اپنی روح کے صحراؤں کو ندامت کے آنسو سے سیراب کریں، اور اپنے دلوں کی سیاہی دھونے کے لیے محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی جاہ میں استغاثہ پیش کریں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حریمِ ناز میں اپنے دلِ رفتہ کو پیش کریں، اپنی روح کے زخموں کو ان کی شفا بخش نظروں سے مندمل کروائیں، اور دلِ سیاہ پر آپ کی نظرِ رحمت کے آبِ شفا کا سوال کریں۔

بیشک ایک بار میرے محبوب کی نظرِ رحمت ہوگئی تو آن کی آن میں خلاقِ کائنات کی جانب سے بخشش کا پروانہ عطا کر دیا جائے گا۔ خدا کرے ہماری آہ و بکا کو محبوب صلی اللہ علیہ وسلم شرفِ قبولیت سے نوازیں، اور خالقِ حقیقی ہماری حالتِ زار پر رحم فرمائے، کرم فرمائے، ہماری زندگی کو فطرت کے نور سے منور فرمائے، اور ہمارے قلوب کو اپنے اور اپنے محبوب کے عشق کی چنگاری سے تابناک فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

جو نبی ﷺ کو میرے قبول ہوں
وہی کاش میرے اصول ہوں
وہی صبر ہو، وہی گفتگو
وہی سادگی، وہی عاجزی

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔