دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

گھر کا حاکم کون؟

عنوان: گھر کاحاکم کون؟
تحریر: آشؔنا
پیش کش: ادارہ لباب

یہ سوال کہ گھر میں، رشتہ داروں میں، علاقوں میں یا محلوں میں کس کا حکم چلے گا، صدیوں سے موضوع بحث رہا ہے اس بارے میں مختلف رائے، نظریات اور روایات پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بعض لوگ مانتے ہیں کہ گھر میں مرد کی بات کو ہی حتمی حیثیت حاصل ہوگی کہ جس گھر میں مرد کا حکم چلتا ہے وہی گھر امن و سکون کا گہوارہ ہوتا ہے۔

جبکہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ گھر کی مالکن بیوی ہوتی ہے، اور گھر کے تمام کام کاج اس کا فریضہ ہوتے ہیں لہٰذا اس کے حکم کا نفاذ یقینی ہونا چاہیے۔ یہ دو الگ الگ نظریات ہیں۔ آئیں جائزہ لیتے ہیں کہ فی الواقع حاکمیت کا معیار کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟

عام طور پر مرد خود کو گھروں کا حاکم تصور کرتے ہیں اور "الرجال قوامون" کے مصداق کو لاگو کرتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے حاکم و افسر مرد کو قرار دیا ہے۔ اسی طرح اگر گھر میں کئی افراد ہوں تو لوگوں کے درمیان بہت تفریق کی جاتی ہے: جس کے پاس زیادہ دولت ہو اس کی بات کو ترجیح دی جاتی ہے؛ یا جس کا حسن کسی سے بہتر ہو اسے اہم سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح محلے میں بھی ایسے لوگوں کو اہمیت ملتی ہے جو بد اخلاق مگر امیر ہوں—انہیں محلے کا افسر بنا دیا جاتا ہے۔

جبکہ اصل نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ جس کی بات صحیح ہو، اسی کی سنی جانی چاہیے۔ اس کا تعلق نہ تو عمر سے ہے ، نہ جنس سے ، نہ دولت سے، اور نہ ہی سماجی حیثیت سے۔ یہ بات کوئی بھی کہہ سکتا ہے: ایک بچہ، ایک بوڑھا، ایک عورت، ایک مرد، ایک طاقتور یا ایک کمزور۔ یہ کوئی لائق تسلیم بات نہیں، نہ ہی حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے کہ صحیح بات صرف مرد ہی کہہ سکتا ہے، اور نہ ہی صرف بڑا یا صرف دولت مند ہی کہہ سکتا ہے۔ یہ تو اللہ رب العزت کا فضل و احسان اور اس کی کرم نوازی ہے کہ کب اچھی بات کس کی زبان سے جاری فرمادے۔

جہاں تک "الرجال قوامون" کی بات ہے، ڈاکٹر مفتی جمال مصباحی فرماتے ہیں کہ 'قوام' کا معنی حاکم نہیں بلکہ محافظ اور نگہبان ہے۔ محافظ کا کام حفاظت، دیکھ بھال اور اپنی ذمہ داری کو نبھانا ہے، نہ کہ حکم چلانا یا اپنا تسلط و غلبہ قائم کرنا۔ ہاں، اگر کوئی صحیح بات کرے تو یقیناً اس کی بات سنی جائے گی۔

حاکمیت کا معیار یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ مرد ہو، طاقتور ہو، خوبرو ہو یا دولت مند ہو؛ بلکہ معیار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اچھا ہو، امن و سکون کا گہوارہ بنانے والا، تعمیری (constructive) ذہنیت کا حامل ہو — اور تخریبی (deconstructive) ذہنیت سے کوسوں دور ہو۔ جوڑنے والا ہونا چاہیے، توڑنے والا نہیں۔ محبت پھیلانے والا ہونا چاہیے، نفرت پھیلانے والا نہیں۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے والا ہونا چاہیے، دور کرنے والا نہیں ۔

لہٰذا جب بھی کوئی شخص صحیح بات بولے، اس کی بات کو ترجیح دینی چاہیے۔ انانیت اور غرور سے باز رہنے میں ہی عافیت ہے۔ ہم نے کئی واقعات میں دیکھا ہے کہ چھوٹوں یا خواتین کی باتوں کو نظر انداز کیا گیا، حالانکہ وہ درست تھیں — اور نتیجہ برا نکلا۔ یہی سلسلہ اکثر ہر معاملے میں دہرایا جاتا ہے۔

کسی کے پاس مکمل طور پر ہمیشہ صحیح ہونے کا حق نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ایک شخص ہمیشہ صحیح رہے یا اس کی بات حرفِ آخر ہو۔ صحیح سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے کئی چیزیں حاضر ہونی چاہیے: ذہنی کیفیت معمول پر ہو، باہری حالات سے متاثر نہ ہو، جذباتی نہ ہو، غصہ فوری نہ آئے، تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کی صلاحیت موجود ہو وغیرہ۔

لہٰذا ہمیں ترجیح اور فوقیت 'صحیح' کو دینی چاہیے — چاہے وہ بات کسی بچے نے کی ہو، بوڑھے نے، کسی جاہل نے، کسی عالم نے، کسی طاقتور نے یا کسی کمزور نے۔ ہمیشہ صحیح ہونا صرف انبیاء علیھم السلام کا خاصہ ہے جو اللہ رب العزت نے اپنے فضل و کرم سے عطا فرمایا۔ ہمیں روایتی باتوں سے ہٹ کر علم، اچھی سوچ اور صحیح فہم کو فوقیت دینی چاہیے۔

صحیح بات کی قدر کرنا اور اسے ترجیح دینا ہی حقیقی دانشمندی ہے۔ اور لائق غور بات یہ ہے کہ کوئی بھی فیصلہ جس کا انجام امن و سکون نہ ہو، وہ کبھی صحیح نہیں ہو سکتا۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔