دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

علماء اور تجارت

علماء اور تجارت
علماء اور تجارت
عنوان: علماء اور تجارت
تحریر: محمد ریحان عطاری مدنی مرادآبادی
پیش کش: دار النعیم آن لائن اکیڈمی، مرادآباد

اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کی رہنمائی کرتا ہے۔ زہد و تقویٰ کی تعلیمات جہاں انسان کو دنیا کی محبت سے آزاد کرتی ہیں، وہیں اسلام محنت، کسبِ معاش اور عزتِ نفس کے تحفظ پر بھی زور دیتا ہے۔

ابن المبارک کا عملی فہم

امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے ایک بار سوال ہوا کہ آپ ہمیں زہد و قناعت کی تعلیم دیتے ہیں، لیکن خود تجارت بھی کرتے ہیں، یہ کیسا تضاد ہے؟ انہوں نے نہایت بصیرت افروز جواب دیا:

میں یہ اس لیے کرتا ہوں تاکہ اپنی عزت کو محفوظ رکھ سکوں، اپنے دامن کو دوسروں کے سامنے پھیلانے سے بچا سکوں، اور اپنے رب کی اطاعت پر مدد حاصل کر سکوں۔ [سیر أعلام النبلاء، الذہبی، ج: ۸، ص: ۳۸۷]

یہ جواب واضح کرتا ہے کہ زہد کا مطلب دنیا کو ترک کر دینا نہیں، بلکہ دل کو دنیا کی غلامی سے آزاد کرنا ہے۔ ہاتھ میں دولت ہو، مگر دل اس کا اسیر نہ ہو۔

اسلام کا عملی نقطۂ نظر

اسلام یہ تصور نہیں دیتا کہ زہد اور فقر ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں۔ قرآن کریم ہمیں محنت اور رزق کی تلاش کا حکم دیتا ہے:

فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ [الملك: ۱۵]

زمین کے گوشوں میں چلو پھرو اور اللہ کا رزق کھاؤ۔

نیز فرمایا:

عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ [المزمل: ۲۰]

ترجمہ: اسے معلوم ہے کہ عنقریب تم میں سے کچھ لوگ بیمار ہوں گے اور کچھ زمین میں اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے سفر کریں گے اور کچھ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوں گے، جو جتنا قرآن آسان ہو پڑھو۔

یہ آیات بتاتی ہیں کہ زمین میں محنت کرنا اور رزق کمانا بذاتِ خود عبادت ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو معذور قرار دیا جو رزق کی جستجو میں اس قدر مشغول ہو جائیں کہ نوافل عبادات زیادہ نہ کر سکیں، بالکل اسی طرح جیسے مریضوں اور مجاہدین کو رخصت دی گئی۔

اور احادیثِ طیبہ میں بھی کئی مقامات پر تاجر اور تجارت کے حوالے سے ذکر موجود ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

سچا امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ [کنز العمال، ج: ۴، ص: ۷]

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ امانت دار سچا تاجر قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوگا۔ [کنز العمال، ج: ۴، ص: ۷]

ان احادیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اگر امانت داری اور سچائی کے ساتھ تجارت کی جائے اور سب کے حقوق کا خیال رکھا جائے، تو یہ تجارت بھی ہماری مغفرت اور بخشش کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

عزتِ نفس اور خودداری

اسلام انسان کو دو ہی راستے دکھاتا ہے:

  1. محنت کر کے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی کفالت کرنا۔
  2. یا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور ان کی عطا کا محتاج ہونا۔

پہلا راستہ عزت کا ہے اور دوسرا ذلت کا، الا یہ کہ کوئی واقعی معذور ہو اور شریعت کے بیان کردہ مستحقین میں شامل ہو:

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ ... [التوبہ: ۶۰]

اسلاف کی بصیرت

اگر ہم اپنے اسلاف کی زندگی کا مطالعہ کریں، تو ہمیں دیکھنے کو ملے گا کہ ہمارے اکابر ہمیشہ محنت اور خودداری کے قائل رہے۔ خودداری کا مفہوم یہی ہے کہ انسان اپنا رزق خود کمائے اور دوسروں کے زیرِ احسان نہ ہو۔ تاریخِ اسلام میں بے شمار علماء گزرے ہیں جو ایک طرف زہد و تقویٰ کے پیکر تھے اور دوسری طرف حلال تجارت کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تو بہت بڑے تاجر تھے۔ اسی طرح امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ و محدثین تجارت کرتے اور اسی مالِ تجارت کو حصولِ علم کے سفر میں خرچ کرتے تھے۔

یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ علماء کا تجارت کرنا نہ صرف جائز، بلکہ باعثِ عزت اور خدمتِ دین کا ذریعہ ہے۔

آج کے دور میں علماء کے تجارت نہ کرنے کے نقصانات

ہمارے زمانے میں بدقسمتی سے اکثر علماء تجارت یا کسبِ معاش کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ کئی خطرناک نقصانات کی صورت میں سامنے آتا ہے:

  • معاشی محتاجی: علماء دوسروں کی امداد اور عطیات کے محتاج ہو جاتے ہیں، جس سے ان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔
  • قول و فعل میں کمزوری: جب عالم مالی طور پر دوسروں پر منحصر ہو، تو بعض اوقات وہ حق بات کہنے سے جھجک جاتا ہے کہ کہیں رزق کے دروازے بند نہ ہو جائیں۔
  • دعوت میں بے اثری: عوام ان علماء کی نصیحت سے کم متاثر ہوتے ہیں جو خود محتاجی کی زندگی گزار رہے ہوں، کیونکہ عزت اور خودداری ہی دعوت کی قوت ہے۔
  • غیروں کا دباؤ: جب علماء تجارت نہ کریں، تو وہ اہلِ ثروت اور حکمرانوں کے زیرِ احسان آ جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دین کی اصل تعلیمات پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
  • نوجوانوں کے لیے غلط نمونہ: جب طالب علم دیکھتے ہیں کہ دینی خدمت کا مطلب صرف محتاجی ہے، تو وہ دین کی طرف آنے سے کتراتے ہیں۔

آج کے دور میں علماء کے لیے مباح تجارت

آج کے زمانے میں علماء کے لیے کئی ایسے مباح اور جائز ذرائع موجود ہیں جنہیں اختیار کر کے وہ اپنی عزتِ نفس محفوظ رکھتے ہوئے دین کی خدمت کر سکتے ہیں، مثلاً:

  • کتابوں، اسلامی لٹریچر اور آن لائن کورسز کی اشاعت۔
  • اسلامی اسکول، مدارس یا اکیڈمی کا قیام۔
  • ایجوکیشنل یوٹیوب چینلز یا آن لائن تدریسی پلیٹ فارمز۔
  • زرعی کام یا زمین کی کاشت۔
  • دینی و تعلیمی سافٹ ویئر اور ایپس کی تیاری۔
  • حلال تجارتِ عامہ (کھانے پینے کی اشیاء، کپڑا، طباعت، پبلشنگ وغیرہ)۔
  • آن لائن پلیٹ فارمز مثلاً فلپ کارٹ، ایمیزون، میشو پر ای کامرس بزنس کرنا۔

اے علمائے کرام! تجارت کو معمولی مت سمجھیں۔ یہ آپ کے علم کی حفاظت کا ذریعہ ہے، آپ کی عزت و وقار کا سہارا ہے، اور آپ کے دعوتی پیغام کو آزاد اور بے خوف رکھنے کا سبب ہے۔ یاد رکھیں! جو عالم خود کفیل ہو، اس کا کلام باوقار اور اس کی نصیحت مؤثر ہوتی ہے۔

آپ اگر تجارت اختیار کریں گے، تو نہ صرف اپنی عزت محفوظ کریں گے، بلکہ آنے والی نسل کے لیے ایک عملی نمونہ بھی پیش کریں گے۔ آج امت کو ایسے ہی خوددار، تاجر علماء کی ضرورت ہے جو رزقِ حلال سے اپنی زندگی سنواریں اور آزاد ضمیر کے ساتھ دین کی خدمت کریں۔ یہی ہمارے اسلاف کی سنت ہے اور یہی ہماری کامیابی کی ضمانت۔

اسلام ایک توازن کا دین ہے۔ زہد کا مطلب فقر نہیں، بلکہ دل کو دنیا کی غلامی سے بچانا ہے۔ اصل عبادت وہ ہے جو انسان کو عزت، خودداری اور دوسروں کی خدمت کے ساتھ جوڑ دے۔ یہی ہمارے سلف کا فہم تھا اور یہی آج کے دور میں علمائے کرام کے لیے سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔