دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا! (قسط اول)

مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا! (قسط اول)
مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا! (قسط اول)
عنوان: مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا! (قسط اول)
تحریر: عالمہ مدحت فاطمہ ضیائی گھوسی

زندگی کی اصل روشنی علم ہے، اور علم کی خوشبو سے معطر ہونے والی زندگیاں ہی حقیقت میں کامیاب ہوتی ہیں۔ کتاب، علم اور مطالعہ کی اہمیت سے کون واقف نہیں؟ مگر جب ہم بزرگانِ دین کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں، تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح اور بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ ان ہستیوں نے اپنے شب و روز کا سب سے قیمتی سرمایہ علم کے حصول اور اس کی خدمت میں لگا دیا۔ ان کی زندگیوں کی بقا بھی مطالعہ پر رہی اور ان کا خاتمہ بھی مطالعہ پر ہوا۔ وہ کتابوں کے اوراق میں یوں محو رہتے کہ گویا دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے۔ ان کی آنکھوں کا سکون، دل کا قرار اور فکر کی غذا کتابوں ہی کے صفحات سے وابستہ تھی۔

بہت سے بزرگ ایسے گزرے جنہوں نے کتاب ہاتھ میں لیے ہوئے، مطالعہ کرتے کرتے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کے لیے مطالعہ صرف ایک شوق نہیں تھا، بلکہ ان کی روح کی غذا اور ان کے وجود کی روحانی زندگی تھی۔ وہ اوراق جو دوسروں کے لیے صرف کاغذ تھے، ان کے لیے زندگی کا سہارا اور موت کا کفن تھے۔

جب میں نے ان اکابرین کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا، تو یہ احساس جاگزیں ہوا کہ کتابوں کے ساتھ ان کا رشتہ محض دنیاوی نہیں تھا، بلکہ یہ عشق تھا، ایک ایسا عشق جس کی انتہا موت کے لمحے تک نظر آتی ہے۔ دورانِ مطالعہ کئی ایسے دل کو چھو لینے والے واقعات سامنے آئے جو نہ صرف کتابوں کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں، بلکہ ان ہستیوں کی علم دوستی اور مطالعہ سے محبت کی روشن مثال بھی ہیں۔ انہی انمول واقعات کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہوں تاکہ ہم بھی اپنے دلوں میں علم کی محبت پیدا کریں اور مطالعہ کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیں۔

حماد بن سلمہ رحمہ اللہ

موسیٰ بن اسماعیل التبوذ حضرت حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے متعلق بیان کرتے ہیں: اگر میں یہ کہوں کہ میں نے حضرت حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، تو میں سچا ہوں گا۔ وہ یا تو حدیث بیان کرنے میں مصروف رہتے، یا مطالعے میں منہمک ہوتے، یا تسبیح کر رہے ہوتے، یا نماز پڑھ رہے ہوتے۔ انہوں نے اپنے دن کو ان کاموں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ [قیمة الزمن عند العلماء، ص: ۲۸]

اور ان کی موت کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ جمعہ کے دن عصر کے بعد جامع مسجد سے نکلے۔ ان کی قوتِ سماعت کافی کمزور ہو گئی تھی، مشکل سے سن پاتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جسے وہ راستے میں دیکھ رہے تھے۔ ایک گھوڑے نے انہیں ٹکر ماری اور وہ گہرے گڑھے میں گر گئے۔ انہیں وہاں سے نکالا گیا، تو وہ ذہنی طور پر متاثر ہو چکے تھے۔ انہیں اس حالت میں گھر پہنچایا گیا کہ وہ اپنے سر کے درد سے کراہ رہے تھے، اور اگلے دن وہ انتقال فرما گئے۔ [قیمة الزمن عند العلماء، ص: ۴۱]

امام ابن مالک النحوی رحمہ اللہ

امام ابن مالک النحوی رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بہت زیادہ مطالعہ کرتے تھے۔ انہیں ہمیشہ نماز پڑھتے، تلاوت کرتے، تصنیف کرتے یا مطالعہ کرتے ہوئے ہی دیکھا گیا۔ ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ دمشق کی سیر کے لیے گئے۔ جب وہ اس مقام پر پہنچے جہاں وہ جانا چاہتے تھے، تو وہ دوستوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ کافی ڈھونڈنے کے بعد انہیں دیکھا، تو وہ کاغذات پر جھکے ہوئے پائے گئے اور مطالعہ کرتے کرتے وفات پا چکے تھے۔ [قیمة الزمن عند العلماء، ص: ۷۱]

امام محمد رحمہ اللہ

کسی نے امام محمد رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھ کر پوچھا: آپ نے حالتِ نزع کو کیسے پایا؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: میں اس وقت مکاتب غلام کے متعلق فکر و تامل میں کھویا ہوا تھا، مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ میری روح کب نکلی۔ [راہِ علم، ص: ۷۲]

امام غزالی رحمہ اللہ

حضرت علامہ نجم الغنی رام پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حجت الاسلام امام محمد غزالی رحمہ اللہ کا جب انتقال ہوا، تو اس وقت صحیح بخاری شریف ان کے سینے پر رکھی ہوئی تھی، جس کے مطالعے میں مصروف تھے۔ [تذكرة السلوك، ص: ۲۷] [کثرت سے مطالعہ کرنے والے بزرگوں کے واقعات، ص: ۹۰، ۹۱، ۹۶، ۱۰۰]

یہ واقعات علم کے ساتھ محبت کا صرف ایک گوشہ ہیں۔ مزید واقعات کی روشنی میں یہ محبت اور بھی نمایاں ہوگی۔ (جاری)

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔