عنوان: | ہم میں اور غیر میں یہ فرق ہے |
---|---|
تحریر: | محمد ہاشم رضا عطاری |
پیش کش: | جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاھوری، موڈاسا، گجرات |
اللہ تعالیٰ نے جہاں ہمیں اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، وہیں ان میں سے ایک نعمت یہ بھی عطا فرمائی کہ ہمیں باادبوں میں پیدا کیا۔ قارئین کرام! یہ ایسی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم اہلِ سنت ہی کے حق میں ہونا منظور فرمایا۔ اسی نعمت نے ہم میں اور غیر میں امتیاز کر دیا، اور اسی نعمت کی وجہ سے ہم دنیا میں بھی کامیاب ہیں اور آخرت میں بھی۔
ادب کتنی بڑی نعمت ہے، اسے یوں سمجھیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابلیسِ لعین سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا، تو وہ بولا:
أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [سورہ ص، آیت: ۷۶]
ترجمہ کنز الایمان: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔
اللہ تعالیٰ نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ [سورہ البقرہ، آیت: ۳۴]
ترجمہ کنز الایمان: منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا۔
اور اس بے ادبی اور نافرمانی کے سبب قیامت تک اسے لعنت کا مژدہ سنا دیا، تو فرمایا:
فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ [سورہ ص، آیات: ۷۷-۷۸]
ترجمہ کنز الایمان: تو جنت سے نکل جا کہ تو راندھا گیا۔ اور بے شک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔
ادب ہی کی مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے:
بڑوں کی بڑی باتیں
استادِ محترم حضرت علامہ مولانا مفتی محمد وسیم اکرم رضوی مصباحی دامت برکاتہم العالیہ وقتاً فوقتاً اپنے طلبہ کی اصلاح کی فکر میں کچھ نہ کچھ مدنی پھولوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ چنانچہ انہی میں سے ایک مدنی پھول نے ذہن میں دستک دی، تو سوچا کہ اسے الفاظ کا جامہ پہنا کر آپ لوگوں کے سامنے پیش کروں۔ ہوا کچھ یوں کہ استادِ محترم نے درسگاہ میں ہم طلبہ سے سوال کیا کہ: ہم میں اور غیر میں کیا فرق ہے؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ہم میں اور غیر میں فرق یہ ہے کہ ہم باادب ہیں اور وہ بے ادب۔
استاد کے بے ادب شاگرد
حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز تصنیف منصفانہ جائزہ، مطبوعہ مجلس برکات، صفحہ نمبر ۵۲ پر یوں رقمطراز ہیں: دیوبندیوں کے حکیم الامت تھانوی صاحب جیسے معتبر راوی، "قصص الاکابر" میں لکھتے ہیں:
یہ (نانوتوی اور گنگوہی) حضرات جب دلی میں پڑھتے تھے، تو آپس میں ایک دوسرے سے (مزاحاً) کہتے کہ میاں کیا بات ہے؟ کہ ہم ان بوڑھوں (استادوں) سے کسی بات میں کم نہیں، بلکہ ہمارا علم تازہ ہے اور ان بوڑھوں کا علم پرانا ہو گیا۔ پھر ہم ذہین بھی ان سے زیادہ ہیں، مگر پھر بھی ان کی قدر ہے، ہماری نہیں، ان کے سامنے ہم کو کوئی پوچھتا ہی نہیں، یہ کیا بات ہے؟ دوسرے صاحب کہتے کہ میاں ذرا ان بڑھوں کو کھسکنے (مرنے) تو دو، بس پھر تو ہم ہوں گے اور تم ہوگے۔ [الہادی، جمادی الثانی ۵۷ھ، از سوانح قاسمی، جلد اول، مکتبہ رحمانیہ، لاہور، صفحہ: ۲۴۴]
قارئین دیکھ لیں کہ بے ادبی کرنا کس کا طریقہ ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ ادھر ابلیس کا اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کرنا جنت سے نکلنے کا سبب ہوا، اور ادھر کچھ نااہل شاگردوں کا اپنے استاد کی بے ادبی کرنا اولیاء کرام و انبیاء عظام، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی بے ادبی و گستاخی کا ذریعہ بنا، اور وہ گمراہ ہو کر اپنے ایمان تک سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان نا اہلوں کی وہ عبارتیں جن کے سبب علمائے حرمین شریفین اور ہند و پاک کے علمائے کرام نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے ان کے متعلق تکفیری فتوے پر اپنی تصدیقات رقم فرمائیں۔ بالتفصیل حسام الحرمین، الصوارم الہندیہ، اور الحق المبین سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔ نیز الحق المبین، مطبوعہ مکتبہ المدینہ دعوت اسلامی، سے تو ان نا اہلوں کی اصل کتاب کا عکس بھی چسپاں کر کے شائع کیا جا چکا ہے۔ اس لیے مزید تشفی کے لیے آپ اسے ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ عام عوام، بلکہ بعض خواص کو بھی ان کی کتب بغیر ضرورت پڑھنے کی شرعاً اجازت نہیں۔
کسی استاد کو کمتر نہیں جاننا چاہیے
اسی طرح ایک مرتبہ درسگاہ میں اساتذہ کرام کا ادب کرنے سے متعلق استادِ محترم مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی دامت برکاتہم العالیہ ہم طلبہ کی ذہن سازی فرما رہے تھے، تو دورانِ نصیحت استاد کو نل اور اس کے درس کو پانی سے تشبیہ دیتے ہوئے بطورِ مثال فرمایا: شاگرد کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ نل سے پانی کتنا آ رہا ہے، بلکہ یہ دیکھے کہ نل کا تعلق کس سے ہے۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیں باادبوں میں رکھے اور اساتذہ کرام کی غلامی میں، مرشد کے ساتھ میٹھے مدینے میں شہادت والی موت نصیب فرمائے۔
اللہم آمین یارب العالمین
محفوظ سدا رکھنا شہا! بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو