عنوان: | حضرت رفیق العلما ایک ہمہ جہت شخصیت |
---|---|
تحریر: | محمد ناظرالقادری مصباحی |
پیش کش: | جامعہ قادریہ مجیدیہ بشیر العلوم، بھوجپور، مرادآباد، یوپی |
دار العلوم اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، برصغیر ہند و پاک کی وہ عظیم دینی درس گاہ ہے جس کے علمی، فکری، تحقیقی، فیضان سے پوری دنیائے سنیت سر سبز و شاداب ہے۔ استاذ العلما جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی قدس سرہ کے اس گلشن سدا بہار میں بے شمار پھول مہکے جنہوں نے نہ جانے کتنی غیرذی ذرع وادیوں کو اپنی علمی، روحانی، لطافتوں سے رشک لالہ زار بنا دیا۔
انہیں شاہین صفت فرزندان اشرفیہ میں استاذ الاساذہ، رفیق العلما، حضرت علامہ مفتی محمد رفیق احمد صاحب مصباحی ڈھکیاوی علیہ الرحمہ کا اسم گرامی بھی ارباب علم و دانش کے درمیان درخشندہ و تابندہ ہے۔ حضرت مفتی صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ بہترین حافظ، عمدہ قاری، درس نظامی پر مکمل دسترس رکھنے والے زبر دست عالم دین، باریک بیں مفتی، نکتہ رس محقق، اور ایک عظیم مربی و استاذ تھے۔
آپ کی ذات گرامی گوں نا گوں صفات حمیدہ کی جامع تھی۔ تصلب فی الدین، راست گوئی، خدداری، احقاق حق، ابطال باطل، خوف خدا عز وجل، عشق رسول ﷺ، بلا خوف لومۃ لائم جذبہ اظہار حق یہ وہ صفات جلیلہ ہیں جن کی وجہ سے آپ کی ہمہ گیر شخصیت اپنے امثال و اقران کے مابین ممتاز تھی۔
ابتدائی حالات
۱۹۲۵ سہنسپور ضلع بجنور میں آپ کی پیدائش ہوئی زمانہ طفولیت میں ہی والد گرامی عبد الرحیم کے انتقال کے بعد اپنے نانا عبد اللہ میاں ساکن ڈھکیا ضلع مرادآباد کے زیر کفالت آگئے۔ اور ڈھکیا میں ہی آپ نے چودہ ۱۴/ برس کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کیا، ڈھکیہ میں آپ دوسرے حافظ قرآن ہوئے پھر نانا جان نے قطب الوقت حضرت مولانا شاہ عبدالسلام قدس سرۂ بہادرگنجوی کے توسط سے معروف دینی دانش گاہ جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں آپ کا داخلہ کرایا، تقریباً تین سال تک آپ اساطین علم و فضل کے سامنے زانو ئے ادب طے کرتے رہے۔ اسی دوران حضور حافظ ملت کے دامن کرم سے وابستہ ہو گئے، حضرت نے پہلے آپ کو تجوید و قرآت پڑھنے کے لئے حضرت قاری عثمان اعظمی مصباحی صاحب مصباح التجوید کے پاس پانی پت بھیجا، وہاں آپ نے ایک سال تک قاری صاحب قبلہ سے فن تجوید و قرآت میں مشق و ممارست فرمائی اور چند عربی کتابیں بھی پڑھیں۔
اس کے بعد دار العلوم اشرفیہ میں داخل ہوئے۔ دار العلوم اشرفیہ میں آپ نے جلیل القدر اساتذہ سے کسب فیض کیا جن میں حضور حافظ ملت کے علاوہ حضرت علامہ حافظ عبد الرؤف صاحب قبلہ بلیاوی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ عبد المصطفےٰ صاحب، صاحب سیرت مصطفےٰ ﷺ و جنتی زیور و غیرہ حضرت عبد المصطفےٰ اعظمی ازہری صاحب، شہزادۂ صدر الشریعہ، علامہ سلیمان بھاگل پوری، حضرت علامہ غلام جیلانی اعظمی قدس سرہ جیسے ارباب فضل و کمال تھے۔
دارالعلوم اشرفیہ میں آپ ممتاز طلبہ میں سے تھے، وہاں رہ کر آپ نے مسلسل پانچ سال اپنی علمی تشنگی بجھائی اور ھجری ۱۹۴۸ میں آپ کو دستار فضیلت سے نوازہ گیا۔
حضرت رفیق العلما کی تدریسی خدمات:
دار العلوم اشرفیہ، مبارک پور سے فراغت کے بعد آپ نے کئی ایک مدارس اہل سنت میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیں جن میں مندرجہ ذیل مدارس خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
۱۔ مدرسہ فاروقیہ عزیذ العلوم، قصبہ بھوجپور
۲۔مدرسہ بدر العلوم، جسپور
۳۔ دار العلوم مظہر اسلام، بریلی شریف
۴۔ دار العلوم محمدیہ، ممبئی
۵۔ دار العلوم ٖ غریب نواز، ممبئی
۶۔ مدرسہ اجمل العلوم، سنبھل
۷۔ مدرسہ مفتاح العلوم، رام نگر
مبدأ فیاض نے علوم عقلیہ و نقلیہ پر عظیم دسترس عطا فرمائی تھی بڑے بڑے دقیق مباحث آپ چٹکیوں میں حل فرما دیتے اور طلبا آپ کی تدریسی استعداد کی فراوانی دیکھ کر فرحت وانبساط سے جھوم اٹھتے، آپ جس مدرسے میں قدم رنحاں ہوتے وہ مدرسہ علوم و فنون کی نکہتوں سے مہک اٹھتا، عروج و ارتقا کے عظیم منازل طے کرنے لگتا اور دور داز سے آنے والے باذوق طلبا کی آماج گاہ بن جاتا۔ آپ کی ذات طالبان علوم نبویہ کی تربیت کے سلسلے میں شدت وشفقت کا حسین سنگم تھی یہی وجہ ہے کہ آپ ظل عاطفت میں پروان چڑھنے والے طلبا زبر دست صلاحیروں کےمالک ہوتے جن کے علم و فن کی وسعت، خدمت دین و سنت، اور تدریسی مہارت پر آج ایک زمانہ شاہد عدل ہے۔آپ کے تلامذہ میں جو جس میدان میں ہے وہ اپنی جگہ مسلمہ شخصیت ہے۔ جن میں حضرت علامہ مفتی یامین صاحب علیہ الرحمہ سابق مفتی بنارس، حضرت علامہ عبد السلام جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف، حضرت علامہ مفتی ممتاز احمد نعیمی علیہ الرحمہ، حضرت مولانا محمد عثمان صاحب معصوم پوری، حضرت قاری لطافت حسین ، آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہیں۔
دعوتی و تبلیغی خدمات:
حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے علمی کمالت کی اصل جولان گاہ درسگاہ ہی تھی۔ تاہم آپ نے وعظ و خطابت کے ذریعہ بھی اسلام و سنیت کی خدمات انجام دیں۔ اس سلسلے میں آپ نے دور دراز کے اسفار بھی کیے۔ دلائل و براہین کی رو شنی میں آپ کے نہایت مفصل و مدلل خطابات ہوئے۔ جنہیں سن کر عقائد میں پختگی،تصلب اور اصلاح نفس کا جذبۂ بیکراں موجزن ہو جاتا، مختلف مقامات پر طواغیت دیوبند نے جب اہل سنت و جماعت کے عقائد و معمولات پر اعتراضات کرکے فضانا ساز گار کرنے کی ناکام کوشش کی تو حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے وہاں پہنچ کر نہایت ہی دل نشیں، ایمان افروز، نجدیت سوز خطابات فرمائے۔ جن سے ضلالت و توھب کی گھنگھور گھٹائیں چھٹ گئیں اور اہل حق کے دل خوشی و مرت سے باغ باغ ہو گیے۔ جن علاقوں یا بستیوں میں دیوبندیت و نجدیت کا خوف ناک عفریت پنپ رہا تھا حضرت وہاں بنفس نفیس تشریف لے جاتے اور وہاں کے باشندگان کو درس ہدایت دے کرمسلک اہل سنت و جماعت پر استقامت کی تلقین فرماتے۔
جذبۂ اظہار حق :
علماۓ ربانیین کا یہ طریقۂ کار رہا ہے کہ وہ حق بات کا بر سر عام اعلان فرماتے ہیں اور حکم ربانی یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم کی تفسیر بن کر احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ حضرت مفتی صاحب قبلہ بھی حق بات ظاہر کرنے میں ہرگز دریغ نہ کرتے۔ اور نہ ہی کسی کی ملامت کا اندیشہ فرماتے۔ جلسوں، کانفرنسوں میں خطبا و نعت خواں حضرات آپ کی موجودگی میں دامن احتیاط پکرھے رہتے اگر کسی سے بھی شرعی غلطی صادر ہوتی فوراً ٹوک دیتے۔ اور احسن طریقہ سے اس کی اصلاح فرماتے اگر چہ بعض مہربانوں نے اس وصف کو شدت مزاجی اور نہ جانے کن کن اوصاف سے تعبیر کیا مگر اہل بصیرت اس وصف کی عظمت و افادیت کو بخوبی جانتے ہیں۔
رد بد مذہباں و مناظرہ:
بحمدہ تعالیٰ آپ کو علام عقلیہ و نقلیہ میں مہارت راسخہ حاصل تھی۔ اسی وسعت مطالعہ، باریک بینی، کے سبب آپ نے بارہا متعدد مسائل میں مختلف جگہوں پر دیوبندی، وہابی مولویوں سے بحثیں فرمائیں اور اللہ عزوجل کے کرم اور مصطفےٰ جان رحمتﷺ کی عنایت سے ہر بار مخالف کو شکشت فاش دی۔ اہل سنت کے عقائد و معاملات کی حقانیت و صداقت پر ایسے دلائل قاطعہ پیش فرماتے کے مد مقابل ساکت و مبہوت رہ جاتا۔ دیوبندی جماعت کے بڑے بڑے سورماؤں کو آپ نے دھول چٹائی۔ لنڈھورا ضلع ہری دوار کا مشیور مناظرہ آپ ہی کی صدارت میں ہوا تھا جس میں سرپرست حضور صدر العلما امام النحو علامہ سید غلام جیلانی میرٹھی اور مناظر اعظم مفتی محمد حسین سنبھلی علیہما الرحمۃ تھے۔
ایک عظیم مربی:
حضرت طلبا پر حد درجہ شفیق و مہربان تھے۔ طلبا پر ان کی عنایات ابر باراں بن کر برستی تھیں۔ وہ اپنے تلامذہ میں کسی قسم کی کمزوری برداشت نہ کرتے بلکہ انہیں ہر میدان کا شہسوار دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے تلامذہ آج بھی ان کے احسانات اور کرم فرمائیوں کو یاد کرکے حضرت کی بارگاہ میں ھدیۂ تشکر پیش کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ معصوم پور کے ایک دینی جلسہ میں حضرت کے شاگرد رشید مفتی یامین صاحب رحمہ اللہ تعالی کا خطاب سننے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ خطاب بڑا شاندار، بصیرت افروز، دلائل و براھین سے مزین اور مختلف علوم و فنون میں حضرت کی دسترس کا ثبوت تھا۔ خطاب کے اختتام پر حضرت مفتی یامین صاحب نے نہایت زبردست آداب و القاب کے ساتھ اپنے استاد گرامی حضرت علامہ مفتی رفیق صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کا ذکر جمیل کرتے ہوۓ اپنی تمام تر علمی فنی کامرانیوں کو حضرت کی عنایتوں کا مرہون منت قرار دیا۔
یادش بخیر:
مجھے پہلی مرتبہ حضرت کی زیارت کا شرف مدرسہ معراج العلوم ڈھکیہ میں ہوا۔ وہاں ایک تنظیم کے قیام کے سلسلے میں علمائے ڈھکیہ نے میٹنگ رکھی تھی جس میں علما و ائمہ کے علاوہ اطراف کے اصحاب علم شریک ہوئے تھے۔ راقم الحروف اس وقت الجامعہ الا شرفیہ میں جماعت سادسہ کا طالب علم تھا، ایک شادی کی تقریب میں ڈھکیہ حاضری ہوئی تھی ۔ اتفاق سے میٹنگ میں بھی شرکت ہو گئی۔ اس میٹنگ کی صدارت مفتی صاحب فرما رہے تھے ۔ اکثر شرکا نے باری باری نے اظیار خیال فرما کر امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا تجزیہ پیش کیا۔ اور اصلاح معاشرہ کے حوالے سے تجاویز بھی پیش کیں۔ محب گرامی حضرت مولانا آصف رضا مصباحی زید مجدہ نے راقم الحروف کو بھی دعوت اظہار رائے دی۔ میں نے کچھ داخلی حالات کے پیش نظر مختصر وقت میں اتفاق و اتحاد کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مندرجہ ذیل اشعار بھی پڑھے:
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خرشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
منتشر قطرے تھے فنا ہو کر رہے
یہی ایک ہوتے تو سمندر ہوتا
بحمدہ تعالی و بفضل حبیبہ الاعلیٰ ﷺ حاضرین کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی صاحب نے بھی راقم الحروف کو داد و تحسین سے نوازا۔ اور کافی خوشی و مسرت کا اظہار فرمایا۔ مگر افسوس صد افسوس میری یہ پہلی اور آخری ملاقات ثابت ہوئی ۔ کیوں کہ علم و فضل کا یہ مہر تاباں ۹/ربیع الاول ۱۴۳۵ھ بمطابق ۱۱/ جنوری ۲۰۱۴ء بروز ہفتہ قصبہ ڈھکیہ میں روپوش ہو گیا۔ اور ہزاروں سوگواروں کو روتا، بلکتا چھوڑ گیا۔
ابر رحمت انکی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے