دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

سورہ فاتحہ کے فضائل(قسط: اول)

عنوان: سورہ فاتحہ کے فضائل(قسط: اول)
تحریر: شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ
پیش کش: معراج فاطمہ زہراوی، ممبئی

سورۂ فاتحہ کے متعدد نام ہیں

فاتحہ، فاتحۃ الکتاب، امّ القرآن، سورۃ الکنز، سورۃ الحمد، سورۃ الدعا، سورۃ المناجات، سورۃ التفویض، سورۃ السؤال، سورۃ الصلاۃ، کافیہ، وافیہ، شافیہ، شفاء، امّ الکتاب، فاتحتہ القرآن، سبع مثانی، نور، رقیہ، سورۃ التعلیم۔

اس پر اتفاق ہے کہ سورۂ فاتحہ میں سات آیتیں ہیں۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ بسم اللہ سورۂ فاتحہ کا جز ہے یا نہیں۔ صحیح یہی ہے کہ بسم اللہ سورۂ فاتحہ کا جز نہیں، اور نہ کسی اور سورت کا؛ بلکہ سورتوں کے مابین فصل کے لیے ہے۔

سورۂ فاتحہ کے بارے میں تین قول ہیں

(1) مکی ہے۔ (2) مکی اور مدنی دونوں ہے، یعنی دو بار نازل ہوئی؛ ایک بار مکہ میں اور ایک بار مدینہ میں۔ (3) آدھی مکہ میں نازل ہوئی اور آدھی مدینہ میں۔

مکی ان سورتوں اور آیتوں کو کہتے ہیں جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئیں، اور مدنی ان کو کہتے ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں، اگرچہ وہ بعدِ ہجرت مکہ میں ہی نازل ہوئی ہوں؛ جیسے آیتِ کریمہ: « اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ» یہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں نازل ہوئی۔

سورۂ فاتحہ میں سے نہ کوئی آیت ناسخ ہے اور نہ کوئی منسوخ۔

اللہ عزوجل نے اپنی عظیم کتاب بسم اللہ سے شروع فرما کر بندوں کو تعلیم دی ہے کہ اپنے ہر نیک اور جائز کام کو بسم اللہ سے شروع کریں۔ اس لیے ہر نیک اور جائز کام بسم اللہ سے شروع کرنا مستحب ہے، اور ناجائز و حرام کام بسم اللہ سے شروع کرنا منع ہے۔

اللہ: مشتق نہیں، جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے۔ (تفسیر الخازن، جلد اوّل، پارہ 1، الم، الفاتحہ، صفحہ 104)

بلکہ یہ اس ذات کا نام ہے جو معبودِ برحق، واجب الوجود، قدیم یعنی ازلی و ابدی ہے، اور تمام صفاتِ کاملیہ کی جامع ہے۔ یہ نام اسی ذات کے ساتھ خاص ہے؛ کسی اور پر اس کا اطلاق نہ کبھی ہوا ہے اور نہ جائز ہے۔

الرحمن، الرحیم: رحمن اور رحیم دونوں رحمت سے مشتق ہیں۔ دونوں صفتِ مشبّہ کے صیغے ہیں اور دونوں مبالغہ کے لیے ہیں، مگر رحمن میں مبالغہ زیادہ ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ “سب سے بڑا مہربان” کیا جاتا ہے، یعنی جو اتنا مہربان ہو کہ اتنا مہربان ہونا کسی دوسرے کے لیے ممکن نہ ہو۔ اسی وجہ سے رحمن کا اطلاق اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور پر جائز نہیں، حتیٰ کہ حضورِ اقدس ﷺ پر بھی نہیں، اگرچہ آنحضرت ﷺ رحمۃٌ للعالمین ہیں۔

بخلافِ رحیم کے، اس کا اطلاق ذاتِ باری تعالیٰ کے علاوہ خود حضور ﷺ پر قرآنِ مجید میں ہوا ہے:

وَبِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (سورۃ التوبہ: 128)

اس سے ظاہر ہوا کہ اسمائے حسنیٰ دو قسم کے ہیں: ایک وہ جو ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں؛ جیسے رحمن، قدوس، صمد۔ دوسرے وہ جن کا اطلاق ذاتِ باری تعالیٰ کے علاوہ دوسروں پر بھی صحیح ہے؛ جیسے رؤف، رحیم، علی، حی، سمیع، بصیر، علیم، حفیظ وغیرہ۔

اگرچہ دونوں کے اطلاق میں معانی کا بہت بڑا فرق ہے۔ اللہ عزوجل کی ہر صفت واجب، قدیم، غیر متناہی، ذاتی اور غیر مخلوق ہے، جبکہ مخلوق کی ہر صفت ممکن، حادث، متناہی، عطائی اور مخلوق ہے۔ اللہ عزوجل رحیم ہے، اس معنی کے اعتبار سے اس کی صفتِ رحمت واجب، قدیم، غیر متناہی، ذاتی اور غیر مخلوق ہے، اور حضورِ اقدس ﷺ رحیم ہیں، اس معنی کے اعتبار سے آپ ﷺ کی صفتِ رحمت ممکن، حادث، متناہی، عطائی اور مخلوق ہے۔ (جاری…)

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔