| عنوان: | آہ بابری مسجد! |
|---|---|
| تحریر: | عالمہ مدحت فاطمہ ضیائی گھوسی |
آج کا دن، جانے کیوں دل پر ایک ان کہے بوجھ کی طرح اتر رہا ہے۔ زندگی اپنی رفتار میں ٹھیک چل رہی ہے، معمولات بھی جیسے ہونے چاہئیں ویسے ہی ہیں، مگر دل کے کسی خاموش گوشے میں گہرا درد سر اٹھا رہا ہے، ایسا درد جو آج پھر دل کے اندر پوری گزری ہوئی تاریخ کو دوبارہ زندہ کر رہا ہے۔ وہ چبھن جو برسوں سے دل کے نہاں خانوں میں دبی ہوئی تھی، آج پھر سینے تک اتر آئی۔ وہ تڑپ جو کبھی بجھی ہی نہیں، آج پھر شعلہ بن کر اٹھی۔ وہ صدا جو نسل در نسل ہمارے سینوں میں گونجتی آئی، آج پھر بلند ہو گئی۔ وہ زخم جو کبھی بھر ہی نہ پایا تھا، آج پھر تازہ اور نم ہو اٹھا۔ مجبور ہوں یہ کہنے پر:
جانے کیسی دہشت ہے جانے کیسا یہ ڈر ہے
ہیں اداس تاریخیں اور چپ کیلنڈر ہے
سوشل میڈیا پر ایک ایک تصویر، ایک ایک ویڈیو روح کو ہلا رہی ہے۔ وہ 6 دسمبر کی دوپہر، اخباروں کے سیاہ الفاظ، مسجد کے گنبد پر کھڑے وہ لوگ اور سناٹے میں گونجتی وہ بھیانک آوازیں۔ آہ! کیسا اذیت ناک منظر تھا۔ جیسے کسی نے دل کے بیچوں بیچ خنجر اتار دیا۔
وہ اللہ کا گھر تھا۔ اس گھر کی مٹی میں سجدوں کی بہاریں تھیں، تلاوتوں کی گونج اور نمازوں کی رونق تھی، اسی گھر کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا گیا، پھر مندر قائم کر لی گئی اور دنیا بس دیکھتی رہ گئی۔
آج جب 22 جنوری 2024ء کا وہ منظر یاد آتا ہے تو واقعی دل کے اندر ایک عجیب سی گھٹن ہوتی ہے: ایودھیا میں نئے مندر کا افتتاح، پورے ملک میں چھٹی، گلیوں میں جلتے دیے، کان کے پردے چیرتے ہوئے جشن کے شور، نعرے، ریلی، لال جھنڈے نہ جانے کیا کیا۔ اور ہم اپنے گھروں میں آوازیں سنتے، کھڑکیوں سے دیکھتے اور خاموش کھڑے صرف محسوس کرتے رہ گئے کہ یہ وقت ہمارا نہیں، کسی اور کا ہے۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ رہ گیا کہ کیا 6 دسمبر ہمارے لیے کوئی دن نہیں؟ کیا ہم اپنے دکھ کا نوحہ بھی زبان پر نہیں لا سکتے؟ کلیجہ منہ کو آتا ہے، وہ راتیں، وہ لمحات، وہ صدائیں دل کو آج بھی جھنجھوڑ دیتی ہیں۔
ہم انتقام کی بات نہیں کرتے، کیوں کہ ہمارا دین ہمیں صبر سکھاتا ہے۔ ہم نفرت کی بات نہیں کرتے، کیوں کہ اللہ عزوجل ہمیں عدل اور حلم کی طرف بلاتا ہے۔ مگر درد، وہ تو درد ہوتا ہے اور 6 دسمبر کا درد امت کے اجتماعی زخم کا درد ہے۔
لیکن اے دل! ہم مایوس نہیں ہوتے، کیوں کہ ہمارے پاس ایمان جیسی عظیم دولت موجود ہے، ہم ناامید نہیں ہوتے کہ اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ ظلم کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، عدل و انصاف کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ ضرور طلوع ہوتا ہے اور تاریخ نے تو بارہا دیکھا ہے کہ کمزور سمجھے جانے والے کبھی کبھی زمین کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی بیت المقدس کو مایوسی کے سناٹے میں ہی فتح کیا تھا، مگر وہ لڑائی غصے سے نہیں تھی، عدل کی چاہ سے تھی۔ ایسے ہی ایک دن اللہ انصاف ضرور کرے گا۔ وہ جانتا ہے کس دل نے کتنا اور کیا سہا، کون سا آنسو کب گرا، کون سا زخم کب بھرا اور کس جسم پر گہرا زخم اب بھی موجود ہے۔
ہماری امید انتقام میں نہیں، بلکہ اس بات میں ہے کہ اللہ کا انصاف ہمیشہ سب سے بلند ہوتا ہے۔ بابری مسجد کا غم ہماری آنکھوں میں نمی ضرور لاتا ہے، مگر دل میں دعا بھی جگاتا ہے کہ اللہ اس امت کے زخم بھر دے، دلوں میں سکون اتار دے اور انصاف کے دروازے ضرور کھولے۔ آمین۔
آہ! بابری مسجد! تم صرف ایک عمارت نہیں تھی، ایک تاریخ تھی، ایک پہچان تھی، تم آج بھی لاکھوں دلوں کی دھڑکن میں زندہ ہو اور ہمیشہ زندہ رہو گی۔
