| عنوان: | احادیث اور شان صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ |
|---|---|
| تحریر: | محمد شفیع احمد عطاری رضوی |
دنیا میں ایک ہی ہستی ایسی ہے جن کے سر انبیا و رسل کے بعد افضیلت مطلقہ کا سہرا سجتا ہے۔ یہی وہ ہستی ہے جن کے بارے میں سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”سب کے احسان کا بدلہ میں نے چکا دیا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے احسان کا بدلہ کل بروز محشر میرا رب ہی عطا فرمائے گا۔“ جیسا کہ اس حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے، فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”ہم پر کسی کا احسان نہیں مگر ہم نے اس کا بدلہ ادا کر دیا۔ سوا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کہ ہم پر ان کا احسان ہے کہ اللہ انہیں اس کا بدلہ قیامت کے دن دے گا۔ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہ دیا جتنا ابوبکر کے مال نے نفع دیا۔ اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر کو دوست بناتا، خیال رکھو کہ تمہارے صاحب اللہ کے دوست ہیں۔“ [مرآۃ المناجیح، ج: 8، الحدیث: 6026]
یہی وہ ہستی ہے جنہیں یار غار و یار مزار بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وہ ہستی ہے جنہیں خدا نے قرآن میں اتقی کہہ کر یاد فرمایا ہے۔ یہی وہ ہستی ہیں کہ جنہیں دنیا صدیق اکبر، عاشق اکبر اور عتیق کے نام سے جانتی پہچانتی ہے۔ یہی وہ ہستی ہے جو احق الخلافۃ ہیں اور جنہیں سب سے پہلا خلیفہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
آئیے! اب ہم سنتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے بارے میں احادیث میں کیا فرمایا۔ ویسے تو ان کی فضیلت پر احادیث کثیرہ ہیں مگر ہم ان میں سے چار یار کی نسبت سے صرف 4 احادیث کریمہ پر اکتفا کریں گے۔
(1) بارگاہ رسالت میں مقام و مرتبہ
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ کھڑے تھے۔ اتنے میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آگے بڑھ کر ان سے مصافحہ فرمایا، پھر گلے لگا کر آپ رضی اللہ عنہ کے منہ کو چوم لیا اور ارشاد فرمایا: ”اے ابو الحسن! میرے نزدیک ابوبکر کا وہی مقام ہے جو اللہ کے ہاں میرا مقام ہے۔“ [الریاض النضرۃ، ج: 1، ص: 185]
(2) ستاروں کی مثل نیکیاں
روایت ہے حضرت عائشہ سے، فرماتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سر مبارک ایک چاندنی رات میں میری گود میں تھا کہ میں بولی: یا رسول اللہ! کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے تاروں کے برابر ہوں گی؟ فرمایا: ”ہاں وہ حضرت عمر ہیں۔“ میں بولی: تو جناب ابوبکر کی نیکیاں کہاں گئیں؟ فرمایا: ”کہ حضرت عمر کی ساری نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی کی طرح ہیں۔“
اس میں جو ایک نیکی کے حوالے سے فرمایا گیا اس کے حوالے سے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ اس ایک نیکی میں بہت گفتگو ہے کہ اس سے کون سی نیکی مراد ہے۔ فقیر کے نزدیک اس سے مراد ہجرت کی رات غار ثور میں حضور انور کی خدمت مراد ہے، اس رات حضرت صدیق نے تہجد نہیں پڑھی تھی اور کوئی عبادت نہیں کی تھی حضور انور کی بے مثال خدمت کی تھی اور آپ کا مبارک سر اپنے زانو پر رکھ کر خوب جی بھر کر اس صورت پاک کے نظارے کیے تھے، یہ ایک نیکی دنیا بھر کی ساری نیکیوں سے بڑھ کر قرار پائی۔ [مرآۃ المناجیح، ج: 8، الحدیث: 6068]
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے نعتیہ دیوان حدائق بخشش میں فرماتے ہیں:
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
(3) جان و مال سب کچھ فدا
صاحب مرویات کثیرہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی پاک، صاحب لولاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا نَفَعَنِي مَالٌ قَطُّ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ یعنی مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر صدیق کے مال نے فائدہ پہنچایا۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا: هَلْ أَنَا وَمَالِي إِلَّا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! میری جان اور میرے مال کے مالک آپ ہی تو ہیں۔ [سنن ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب في فضائل اصحاب رسول اللہ، الحدیث: 94، ج: 1، ص: 73]
وہی آنکھ ان کا جو منہ تکے
وہی لب کہ محو ہوں نعت کے
وہی سر جو ان کے لئے جھکے
وہی دل جو ان پہ نثار ہے
اس روایت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مبارک عقیدہ بھی یہی تھا کہ ہم دو جہاں کے تاجور، سلطان بحر و بر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام ہیں اور غلام کے تمام مال و منال کا مالک اس کا آقا ہی ہوتا ہے، پر ویسے بھی ہم غلاموں کا تو اپنا ہے ہی کیا کہ پیش کریں۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
کیا پیش کریں جاناں کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہارا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے
(4) خدا چاہتا ہے رضائے صدیق
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس حاضر تھا، وہاں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایسا چوغہ پہنے تشریف فرما تھے جس میں بٹنوں کی جگہ کانٹے لگے ہوئے تھے۔ اتنے میں جبریل امین بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! آج ابوبکر نے ایسا چوغہ کیوں پہنا ہوا ہے؟ فرمایا: ”اے جبریل! اس نے اپنا سارا مال فتح مکہ سے پہلے مجھ پر قربان کر دیا ہے۔“ جبریل نے عرض کیا: اللہ آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے ان سے پوچھئے کہ وہ اللہ سے راضی ہیں یا ناراض؟ نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! اللہ تمہیں سلام ارشاد فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ مجھ سے راضی ہو یا نہیں؟“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”میں اپنے پروردگار سے ناراض کیسے ہو سکتا ہوں؟ میں اپنے رب سے راضی ہوں، میں اپنے رب سے راضی ہوں، میں اپنے رب سے راضی ہوں۔“ [فیضان صدیق اکبر، ص: 584]
مزید تفصیل سے سیرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جاننے کے لیے مکتبۃ المدینہ سے شائع ہونے والی بہترین کتاب ”فیضان صدیق اکبر“ جو کہ مجلس المدینۃ العلمیہ کی بہترین پیش کش ہے، اس کو پڑھیں اور سیرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔ نیز امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”الزلال الانقیٰ من بحر سبقۃ الاتقیٰ“ کا مطالعہ کریں۔ اسی طرح ”عاشق اکبر“ جو کہ امیر اہل سنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ و مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری ضیائی کی تصنیف کردہ ہے اس کا مطالعہ بھی مفید و سود مند ثابت ہوگا۔
محترم قارئین کرام
کبھی ہم نے بھی غور کیا کہ یہ سب مقام و مرتبہ کیسے حاصل ہوا ہوگا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کو اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکام کے مطابق بسر فرمائی۔ اگر ہم بھی دنیا و آخرت میں سرخ روئی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں بھی اپنی زندگی کے لیل و نہار اور نشیب و فراز میں ان احکام کو نافذ کرنا ہوگا جس کا اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکم دیا ہے۔
چند اشعار
مولانا حسن رضا خان علیہ الرحمۃ کیا خوب فرماتے ہیں:
بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا
ہے یار غار محبوب خدا صدیق اکبر کا
الٰہی رحم فرما خادم صدیق اکبر ہوں
تری رحمت کے صدقے واسطہ صدیق اکبر کا
رسل اور انبیاء کے بعد جو افضل ہو عالم سے
یہ عالم میں ہے کس کا مرتبہ صدیق اکبر کا
خدا اکرام فرماتا ہے اتقیٰ کہہ کے قرآں میں
کریں پھر کیوں نہ اکرام اتقیا صدیق اکبر کا
علی ہیں اس کے دشمن اور وہ دشمن علی کا ہے
جو دشمن عقل کا دشمن ہوا صدیق اکبر کا
لٹایا راہ حق میں گھر کئی بار اس محبت سے
کہ لٹ لٹ کر حسن گھر بن گیا صدیق اکبر کا
اللہ پاک ہمیں دونوں جہاں میں اپنی رحمت میں رکھے، ہمارے حق میں جو بہتر ہو وہ عطا فرمائے اور سیرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی میں بطور نمونہ عمل شامل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔
محمد شفیع احمد عطاری رضوی
جھیٹکوییا، جنکپور، دھنوشا، نیپال
