| عنوان: | سورہ فاتحہ کے فضائل(قسط: دوم) |
|---|---|
| تحریر: | شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ |
| پیش کش: | معراج فاطمہ زہراوی، ممبئی |
اسمائے حسنیٰ دو قسم کے ہیں
بعض کلمات کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اللہ عزوجل کے ساتھ خاص ہوتے ہیں۔ ان کا اطلاق اللہ عزوجل کے علاوہ دوسرے پر صحیح نہیں، اگرچہ اس کلمہ کا معنی اشتقاقِ لغوی دوسرے میں پایا جائے۔ جیسے یہی لفظ ’’رحمن‘‘ ہے۔ ازروئے لغت اس کا معنی مہربان ہے، اور بلاشبہ حضور اقدس ﷺ مہربان ہیں، مگر آنحضرت ﷺ کو ’’رحمن‘‘ کہنا منع ہے۔ ’’رحیم‘‘ کہتے ہیں۔
دوسری مثال ’’عزوجل‘‘ کی ہے۔ اس کا معنی ہے: عزت والا، جلال والا۔ اس میں کسی مسلمان کو شبہ نہیں کہ حضور اقدس ﷺ جلال والے ہیں۔ خود قرآنِ مجید میں ہے:
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (سورہ المنافقون، پارہ: 28، رکوع: 1، آیت: 8)
ترجمہ: اللہ اور رسول اور مومنین ہی کے لیے عزت ہے، مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔
مگر حضور اقدس ﷺ کے نامِ نامی کے ساتھ ’’عزوجل‘‘ کہنا منع ہے۔ منع کا یہ مطلب نہیں کہ حضور اقدس ﷺ ساری کائنات سے زیادہ عزت و جلال والے نہیں، بلکہ وہ ساری کائنات سے زیادہ عزت و جلال والے ہیں، مگر لفظ ’’عزوجل‘‘ کا استعمال چونکہ اللہ عزوجل کے ساتھ خاص ہے، اس لیے اس لفظ کو نامِ نامیِ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ استعمال کرنا منع ہے۔
رحمت میں مبالغہ کا کیا مطلب ہے؟
رحمت میں مبالغہ کا مطلب ہوتا ہے: رحمت میں زیادتی۔ یہ زیادتی باعتبارِ کم (مقدار) کی ہو یا باعتبارِ کیف کی ہو۔ ’’رحمن‘‘ میں یہ زیادتی اگر باعتبارِ کم (مقدار) مراد لی جائے تو چونکہ دنیا میں اللہ عزوجل کی رحمت عام ہے، مومن، کافر، انسان، حیوان سب کے لیے ہے۔ یہ رحمت کی زیادتی مقدار میں ہوئی، اور آخرت میں اللہ عزوجل کی رحمت صرف مسلمین کے ساتھ خاص ہوگی، کافر اس سے محروم رہیں گے۔ اس لحاظ سے کہا جاتا ہے:
’’یا رحمن الدنیا و رحیم الآخرۃ‘‘
اور اگر ’’رحمن‘‘ میں رحمت کی زیادتی باعتبارِ کیف ملحوظ ہو تو یوں کہا جاتا ہے:
’’یا رحمن الدنیا والآخرۃ و رحیم الدنیا‘‘
اس لیے دنیا کی نعمت کتنی ہی عظیم ہو، آخرت کی نعمت کے مقابلے میں حقیر ہے۔ کلام کا اسلوب یہ ہے کہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ’’رحیم‘‘ کو پہلے مذکور ہونا چاہیے تھا اور ’’رحمن‘‘ کو بعد میں، مگر اللہ عزوجل نے ’’رحمن‘‘ کو پہلے ذکر کیا اور ’’رحیم‘‘ کو بعد میں۔ اس لیے کہ ’’رحمن‘‘ اگرچہ صفت ہے، مگر چونکہ یہ اللہ عزوجل کے ساتھ خاص ہے، اس لحاظ سے بمنزلۂ علم ہو گیا، اور علم صفت پر مقدم ہوتا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
ترجمہ: سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، جو سارے جہان کا پالنے والا ہے، سب سے بڑا مہربان، نہایت رحم والا، روزِ جزا کا مالک ہے۔ الحمد:
دو کلموں سے مرکب ہے: الف لام (ال) اور حمد۔ یہ مصدر ہے، اور الف لام جنس کا بھی ہو سکتا ہے اور استغراق کا بھی۔ زبان سے کسی کی واقعی خوبی بیان کرنے کو حمد کہتے ہیں، خواہ کسی نعمت کی عطا پر ہو، خواہ بغیر اس کے۔ کسی نعمت کی عطا پر نعمت دینے والے کی عظمت کو زبان یا دیگر اعضاء سے ظاہر کرنا، یا اس کی عظمت کا اعتقاد رکھنا، شکر ہے۔ شکر کی اعلیٰ قسم یہ ہے کہ دل میں اعتقاد کے ساتھ زبان سے اظہار کیا جائے۔
حدیثِ پاک میں ہے:
’’الحمد رأس الشکر، ما شکر اللہ من لم یحمدہ‘‘
ترجمہ: حمد شکر کی اصل ہے، جس نے اللہ کی حمد نہیں کی اس نے شکر نہیں کیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الدعوات، حدیث: 2307)
اس میں راز یہ ہے کہ اعتقاد کی کسی کو خبر نہیں، اور اعضاء کے اعمال میں یہ احتمال ہے کہ کہیں تمسخر نہ ہو، مگر دل کے ساتھ زبان سے جو شکر ہوگا وہ ان دونوں سے زیادہ واضح اور غیر مشکوک ہوگا۔
’’لِلّٰهِ‘‘: یہاں لام اختصاص کے لیے ہے، یعنی سب تعریفیں اللہ ہی کے ساتھ خاص ہیں۔ اس کے سوا کوئی ایسا نہیں جو تمام تعریف کا اہل ہو، اس لیے کہ حمد واقعی خوبی بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ تو جس میں جتنی خوبی ہو اتنی ہی بیان کرنا حمد ہوگا، اس سے زیادہ بیان کرنا جھوٹ ہوگا۔ سوائے اللہ عزوجل کے کوئی ایسا نہیں جو تمام خوبیوں سے متصف ہو۔ اس لیے اس کے سوا کوئی حمد کا اہل نہیں، اور چونکہ ’’اللہ‘‘ علم ہے اس ذات کا جو تمام صفاتِ کمالیہ اور جملہ خوبیوں کے ساتھ متصف ہے، اس لیے وہی سب تعریف کا مستحق ہے۔ ذرا غور کرنے سے واضح ہو جائے گا کہ یہ جملہ دعویٰ بھی ہے اور دلیل بھی۔(جاری۔۔۔۔)
