| عنوان: | مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ کا درسِ کسب و تجارت(قسط: چہارم) |
|---|---|
| تحریر: | علامہ محمد احمد مصباحی ناظمِ تعلیمات جامعہ اشرفیہ |
| پیش کش: | غوثیہ واسطی بنت لئیق نوری عفی عنہما |
رزق کمانے کی ترغیب اور مانگنے کی تذمیم
رسولُ اللہ ﷺ نے ایک طرف کسب کی ترغیب دی ہے اور اس کے آداب بیان فرمائے ہیں، اور دوسری طرف کسب چھوڑ کر مانگنے کی سخت مذمت کی ہے اور اس پر وعیدیں بھی سنائی ہیں۔ یہاں چند احادیث کے تراجم لکھے جاتے ہیں:
حدیث: سوال ایک قسم کی خراش ہے کہ آدمی سوال کر کے اپنے منہ کو نوچتا ہے، جو چاہے اپنے منہ پر اس خراش کو باقی رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ ہاں، اگر صاحبِ سلطنت سے اپنا حق مانگے یا ایسے امر میں سوال کرے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو جائز ہے۔ (امام احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن حبّان، کنز العمال، ج: ٦، ص: ٢٧٧، ٢٧٨، حدیث: ٢١١٩، ٢١١٨)
حدیث: جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرے تو وہ جہنم کا گرم پتھر ہے، اب اسے اختیار ہے، چاہے تھوڑا مانگے یا زیادہ مانگے۔ (صحیح ابن حبّان، الترغیب فی الذکر لابن شاہین، فوائد تمام، سنن سعید بن منصور، کنز العمال)
حدیث: جو شخص بغیر حاجت سوال کرتا ہے، گویا وہ انگارا کھاتا ہے۔ (مسند امام احمد، صحیح ابن خزیمہ، مختارہ ضیاء مقدسی، شعب الایمان للبیہقی، کنز العمال)
حدیث: جو شخص سوال کرے، حالانکہ اس کے پاس اتنا ہو کہ وہ سوال سے بے نیاز ہو، تو وہ آگ کی زیادتی چاہتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: وہ کیا مقدار ہے جس کے ہوتے ہوئے سوال جائز نہیں؟ فرمایا: صبح و شام کا کھانا۔ (مسند امام احمد، صحیح ابن حبّان، سنن ابو داؤد، مستدرک حاکم، کنز العمال)
حدیث: قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ پر تاوان لازم آ گیا۔ میں نے حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا۔ فرمایا: ٹھہرو، ہمارے پاس صدقہ کا مال آئے گا تو تمہارے لیے حکم فرمائیں گے۔ پھر فرمایا: اے قبیصہ! سوال حلال نہیں مگر تین صورتوں میں:
(۱) کسی نے ضمانت لی ہو، یا آپس کی جنگ میں صلح کرائی ہو اور اس پر مال کا ضامن ہوا ہو، تو اس سے سوال حلال ہے، یہاں تک کہ وہ مقدار پا لے، پھر باز رہے۔
(۲) یا کسی پر ایسی آفت آئی ہو کہ اس کے مال کو تباہ کر گئی ہو، تو اس سے سوال حلال ہے، یہاں تک کہ گزر بسر کے لیے پا جائے۔ (۳) یا کسی کو فاقہ پہنچا ہو اور اس کی قوم کے تین عقل مند شخص گواہی دیں کہ فلاں کو فاقہ پڑا ہے۔ ان تین کے سوا، اے قبیصہ! سوال کرنا حرام ہے، کہ سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔ (مسند امام احمد، صحیح مسلم، سنن ابو داؤد، سنن نسائی، کنز العمال)
حدیث: کوئی شخص رسی لے جائے اور پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا لا کر بیچے، اور سوال کی ذلت سے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو بچائے، یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے، چاہے لوگ دیں یا نہ دیں۔ (مسند امام احمد، صحیح بخاری، ابن ماجہ، کنز العمال)
حدیث: فراسی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ ﷺ سے عرض کیا: کیا میں سوال کروں؟ فرمایا: نہیں، اور اگر چارہ نہ ہو تو صالحین سے مانگو۔ (سنن ابو داؤد، سنن نسائی، مشکوٰۃ المصابیح)
مولانا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ میں صالحین سے سوال کرنے کی وجوہات بیان فرمائیں: (۱) صالح شخص دے گا تو حلال مال سے دے گا۔ (۲) وہ کریم اور مہمان نواز ہوگا۔ (۳) وہ تمہاری محتاجی اور اپنی بخشش کا راز افشا نہ کرے گا۔ (۴) تمہارے لیے دعاۓ خیر کرے گا، جو مقبول ہوگی۔
حدیث: عبداللہ بن الساعدی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے صدقہ کا عامل بنایا۔ جب میں نے صدقہ وصول کر لیا اور انہوں نے میرے لیے اجرت دینے کا حکم فرمایا تو میں نے عرض کیا: میں نے یہ کام اللہ کے لیے کیا ہے، اور میرا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ فرمایا: جو دیا جا رہا ہے، لے لو، اس لیے کہ میں نے بھی رسولُ اللہ ﷺ کے زمانے میں یہ کام کیا تھا۔ (سنن ابو داؤد، مشکوٰۃ المصابیح)
حدیث: ایک انصاری نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہو کر سوال کیا۔ ارشاد فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ عرض کیا: ایک ٹاٹ ہے، جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے ہیں اور ایک حصہ بچھاتے ہیں، اور ایک لکڑی کا پیالہ ہے، جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: دونوں چیزیں میرے پاس لاؤ۔ آپ ﷺ نے نیلام فرمایا، پھر ارشاد فرمایا: یہ اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال تمہارے چہرے پر چھالے بن کر آئے۔ (سنن ابو داؤد، سنن ابن ماجہ، مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:
مَكْسَبَةٌ فِيهَا بَعْضُ الدَّنَاءَةِ خَيْرٌ مِنْ مَسْأَلَةِ النَّاسِ۔ (کتاب وقیع، کنز العمال، ج: ٤، ص: ٦٨، حدیث: ٦٦١)
ترجمہ: ایسا ذریعۂ کسب، جس میں کچھ کم تری سمجھی جائے، لوگوں سے مانگنے سے بہتر ہے۔
حدیثِ پاک:
لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ، وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ۔ (سنن ترمذی، سنن ابو داؤد، سنن دارمی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مشکوٰۃ المصابیح)
ترجمہ: صدقہ مالدار کے لیے حلال نہیں، اور نہ اس شخص کے لیے جو توانا اور تندرست ہو۔
مذمتِ سوال سے متعلق احادیث بکثرت ہیں۔ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ نے بہارِ شریعت (حصہ پنجم) میں پچیس احادیث ذکر فرمائی ہیں۔
