| عنوان: | حضور اور تواضع و انکساری |
|---|---|
| تحریر: | معراج رضوی شاہ جہان پور، امام و خطیب مسجد گدا شاہ ولی و مدرس مدرسہ انوارِ فیضانِ فاطمہ، بجلی پورہ، شاہ جہان پور |
نیچیں نظروں کی شرم و حیا پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے کمالات و معجزات اور وہ شانِ رفیع عطا فرمائی جن کا کوئی شمار نہیں، اور امت کے لیے آپ کو ایک بہترین نمونہ عمل بنا کر بھیجا ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [سورہ الاحزاب: ۲۱]
ترجمہ: بے شک تمہارے لیے رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور انکساری یقیناً آپ کی زندگی کا ایک عظیم خاصہ ہے۔ باوجود اس کے کہ اللہ نے آپ کو اپنے خزانوں کی کنجیاں عطا فرمائیں، آپ نے کبھی ناشکری یا غرور و تکبر کو نہیں اپنایا، بلکہ آپ نے ہمیشہ عاجزی و انکساری کو اختیار کیا۔
اعلیٰ حضرت کے والد ماجد علامہ نقی خان رحمہما اللہ اذاقۃ الاثام لمانعي عمل المولد و القيام (مطبوعہ امام احمد رضا اکیڈمی) میں جامع الترمذی کے حوالے سے ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں بیٹھ کر گزشتہ پیغمبر اور ان کے مراتب کا ذکر کر رہے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: میں نے تمہاری گفتگو کو سنا اور وہ ویسے ہی ہے جیسے تم آپس میں بات کر رہے تھے۔ پھر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کمالات و خوبیوں کا ذکر فرمایا:
سنو خبردار! میں اللہ کا حبیب ہوں اور میں اس پر فخر نہیں کرتا۔ قیامت کے دن لواء الحمد میرے ہاتھ میں ہوگا، آدم علیہ السلام اور تمام لوگ اس کے نیچے ہوں گے، اس پر فخر نہیں کرتا۔ قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا اور شفاعت قبول کیا جانے والا میں ہوں، اس پر فخر نہیں کرتا۔ میں ہی ہوں جو سب سے پہلے جنت کے دروازوں کو حرکت دوں گا اور اللہ تعالیٰ میرے لیے اسے کھولے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین کو اس میں داخل فرمائے گا، اس پر فخر نہیں کرتا۔ اور میں ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ عزت رکھوں گا تمام اولین و آخرین میں، اس پر فخر نہیں کرتا۔ [جامع الترمذی، اذاقۃ الاثام لمانعي عمل المولد و القيام، ص: ۱۰۳-۱۰۴]
اس حدیث پاک میں حضور نے خود اپنے کمالات کا ذکر بھی فرمایا اور ساتھ اپنی عاجزی و انکساری کا بھی ذکر فرمایا کہ میں اس پر فخر نہیں کرتا۔
اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایا کہ اللہ نے اپنے خزانوں کی کنجیاں عطا فرما دی ہیں۔ چناں چہ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی کنجیاں چتکبرے یعنی رنگ برنگے گھوڑوں پر رکھ کر میرے پاس حاضر کی گئیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام لے کر آئے، اس پر نازک ریشم کا منقش زین پڑا ہوا تھا۔ [مسند امام احمد بن حنبل، ج: ۲۲، ص: ۳۹۰، حدیث: ۱۴۵۱۳]
کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے
محبوب کیا مالک و مختار بنایا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تواضع کرنا، باوجودیکہ آپ جلیل المنزلت اور رفیع المرتبت ہیں، اس خصوصیت کی ایک حدیث پاک نقل کرتا ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا کہ کیا آپ نبی بادشاہ ہونا پسند کرتے ہیں یا نبی بندہ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی بندہ ہونا پسند فرمایا۔ اس وقت آپ سے حضرت اسرافیل علیہ السلام نے عرض کیا: آپ کی اسی تواضع کی بنا پر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آپ کو تمام اولادِ آدم علیہ السلام کی سرداری مرحمت فرمائے گا اور آپ ہی پہلے وہ شخص ہوں گے جو شفاعت کریں گے۔ [الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، ص: ۱۱۲]
سنن ابی داؤد کے حوالے سے اسی کتاب میں ایک حدیث درج ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے بالاسناد مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضور عصا مبارک پر ٹیک لگائے جب ہم پر تشریف لائے، تو ہم آپ کے لیے کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عجمیوں کی طرح نہ کھڑے ہو کہ وہ ایک دوسرے کی یوں ہی تعظیم کیا کرتے ہیں، اور فرمایا: میں تو ایک بندہ ہوں، اسی طرح کھاتا ہوں جس بندہ کھاتا ہے اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جس طرح بندہ بیٹھتا ہے۔ [سنن ابی داؤد، الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، ص: ۱۱۲]
اللہ اکبر! اس حدیث پاک سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو ذرا کسی منصب پر آئے، تو فوراً قوم سے پروٹوکول کے خواہش مند ہو جاتے ہیں۔ جہاں کوئی منصبِ تدریس پر آیا، تو طلبہ سے نئے نئے انداز میں خدمت کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ وہ ان سے خصوصی پروٹوکول کے متمنی ہوتے ہیں۔ کوئی شاگرد ذرا چوک جائے، تو سخت ناراضگی اور اپنے استاذ ہونے یا بڑے ہونے کا بار بار احساس کراتے ہیں۔ جہاں کسی پیر صاحب کے دو چار مرید بنے، پھر تو وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ انہوں نے ایسے لوگ اپنے پاس رکھے ہوئے ہوتے ہیں جو پیر صاحب کی فضیلت ہی مریدوں کو سناتے رہتے ہیں اور ان کے ناز و نخرے کے بارے میں ہی بتاتے رہتے ہیں کہ پیر صاحب یہ کھانا پسند کرتے ہیں، وہ پسند کرتے ہیں، ایسی جگہ بیٹھتے ہیں، ویسی جگہ نہیں جاتے وغیرہ وغیرہ۔ غریب مرید یہی سوچ کر زندگی کاٹ لیتا ہے کہ ایسی ہستی کا دیدار ہی نصیب کی بات ہے۔
ان لیڈروں اور نیتاؤں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جو عوام کو ہمیشہ اپنی خدمات ہی گنواتے نہیں تھکتے اور ان سے داد و تحسین، عزت و وقار کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اللہ نفس کی مکاریوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جتنا نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو بڑھایا (کہ انہوں نے خدا کا بیٹا مان لیا، معاذ اللہ)۔ میں تو بندہ ہی ہوں، تو مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔ [الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، ص: ۱۱۳]
اہلِ منصب کے لیے نصیحت
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غلاموں کی دعوت کو بھی قبول فرماتے تھے۔ جو کی روٹی اور پرانی چربی کھانے کی دعوت دی جاتی تھی، تو آپ اس دعوت کو قبول فرماتے تھے۔ مسکینوں کی بیمار پرسی فرماتے، فقراء کے ساتھ ہم نشینی فرماتے، اور اپنے صحابہ کے درمیان مل جل کر نشست فرماتے۔ [سیرت مصطفی، ص: ۴۴۷]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھریلو کام خود اپنے دستِ مبارک سے کر لیا کرتے تھے۔ اپنے خادموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے اور گھر کے کاموں میں آپ اپنے خادموں کی مدد فرمایا کرتے تھے۔ [سیرت مصطفی، ص: ۴۴۷]
کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
امراء، اہلِ ثروت، پیر صاحبان، اور اساتذہ کرام بھی ذکر کردہ احادیث سے نصیحت و عبرت حاصل کریں جو اپنے ملازموں، مریدوں، شاگردوں، نوکروں، چاکروں سے ان کی محنت و طاقت اور طے شدہ اجرت سے زیادہ کام کروانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور پھر بھی ان پر احسان کے پلندے تھوپتے رہتے ہیں۔ پیر صاحب سوچیں جب کوئی غریب مرید ملنے کا خواہش مند ہوتا ہے، تو اسے حضرت کی مصروفیت کے بارے میں بتا کر بہلا پھسلا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے یا پھر گھنٹوں باہر حضرت کے انتظار میں بٹھایا جاتا ہے کہ حضرت اندر بہت مصروف ہیں۔ اور جب کوئی امیر کبیر شخص جاتا ہے، تو حضرت کے پہلو میں جگہ ملتی ہے۔ اساتذہ کمزور طلبہ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور ان طلبہ پر خصوصی نظر رکھتے ہیں جو ذہین و فطین ہوں یا خوب آؤ بھگت کرتے رہتے ہیں۔ پیر صاحب اگر کسی غریب کے گھر کی دعوت قبول بھی کر لیں، تو قسم قسم کی غذائیں حضرت کو نظر کی جاتی ہیں اور پیر صاحب کا احسان عظیم بھی ہوتا ہے کہ وہ تشریف لائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شمعِ نبوت سے نکلنے والی روشنی میں اپنی زندگی بسر کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔
م
