دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا! (قسط دوم)

مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا! (قسط اول)
مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا! (قسط دوم)
عنوان: مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا! (قسط دوم)
تحریر: عالمہ مدحت فاطمہ ضیائی گھوسی

محمد ابوریحان البیرونی

مشہور اسلامی ریاضی دان "البیرونی" کے نام سے کون نا واقف ہو گا؟ ان کے بارے میں آتا ہے کہ ان کا ہاتھ کبھی قلم سے اور ان کا دل کبھی فکرِ علم سے فارغ نہ ہوتا تھا۔ ان کی وفات کے وقت کا وہ واقعہ پڑھیے جو علامہ یاقوت حموی نے لکھا ہے اور دیکھیے کہ کتنی تڑپ تھی ان کے دل میں علم کی۔ جب ابو الحسن علی بن عیسیٰ ولوالجی عالمِ نزع میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت ان پر نزع کی حالت طاری تھی، تکلیف کی شدت تھی، طبیعت میں گھٹن تھی۔ زندگی کی اٹھہتر (۷۸) منزلیں طے کرنے والے علم کے اس شیدائی نے اسی حال میں ان سے دریافت کیا: تم نے ایک روز جداتِ فاسدہ (نانیوں) کی میراث کا مسئلہ مجھے کس طرح بتایا تھا؟ علی بن عیسیٰ نے کہا: کیا تکلیف کی اس شدت میں بھی بتاؤں؟ البیرونی نے جواب دیا، اور ایسا جواب جو صرف علم کا سچا عاشق ہی دے سکتا ہے۔ فرمایا: دنیا سے اس مسئلہ کا علم لے کر رخصت ہوں، کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ میں اس سے جاہل ہو کر اس دارِ فانی سے کوچ کروں؟ چنانچہ نزع کی اس کیفیت میں علی نے وہ مسئلہ ان کے سامنے دہرایا اور البیرونی نے یاد کر لیا۔ علی بن عیسیٰ کا بیان ہے کہ رخصت ہو کر ابھی میں راستے ہی میں تھا کہ گھر سے آہ و بکا کی آواز نے مجھے ان کی وفات کی اطلاع دی۔

حدث القاضي كثير بن يعقوب النحوي البغدادي عن الفقيه أبي الحسن علي بن عيسى الولوالجي قال دخلت على أبي الريحان وهو يجود بنفسه وقد حشرج نفسه وضاق به صدره فقال لي في تلك الحال كيف قلت لي يوما في حساب الجدات الفاسدة فقلت له إشفاقا عليه أفي هذه الحالة قال يا هذا أودع الدنيا وأنا عالم بهذه المسألة ألا يكون خيرا من أن أخليها وأنا جاهل بها فأعدت ذلك عليه وحفظ وعلمني ما وعد وخرجت من عنده وأنا في الطريق فسمعت الصراخ عليه [الوافي بالوفيات، ج: ۸، ص: ۹۲؛ معجم الأدباء، ج: ۱۷، ص: ۱۸۱] [کثرت سے مطالعہ کرنے والے بزرگانِ دین، ص: ۳۸، ۳۹؛ بزرگانِ دین کا شوقِ مطالعہ، ص: ۵، ۶]

امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا آخری لمحات میں علمی مذاکرہ

ابراہیم بن الجراح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ (متوفی ۱۸۲ھ) کے مرضِ وفات میں ان کی عیادت کے لیے پہنچا، تو دیکھا کہ ان پر غشی طاری ہے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں، تو مجھے اپنے پاس بیٹھا دیکھا۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے سوال کیا: ابراہیم! اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا: حضرت! اس حال میں بھی مسائل کی بحث؟ انہوں نے فرمایا: کیا حرج ہے؟ ممکن ہے اس سے کسی کی نجات ہو جائے۔ گویا فرما رہے تھے:

جان کا صرفہ ہو تو ہو، لیکن!
صرف کرنے سے علم بڑھتا ہے

پھر انہوں نے مسئلہ پوچھا: بتائیے حاجی کے لیے افضل طریقہ کون سا ہے؟ وہ پیدل رمی کرے یا سوار ہو کر؟ میں نے عرض کیا: پیدل کرنا افضل ہے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ درست نہیں! پھر میں نے کہا: سوار ہو کر رمی کرنا افضل ہو گا؟ انہوں نے فرمایا: یہ بھی درست نہیں۔ پھر خود ہی فرمایا: جس رمی کے بعد کوئی اور رمی کرنی ہو، اس کا پیدل کرنا افضل ہے، اور جس کے بعد کوئی اور رمی نہ ہو، اسے سوار ہو کر کرنا افضل ہے۔

ابراہیم بن الجراح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں ان کے پاس سے اٹھا اور ابھی دروازے تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ گھر سے عورتوں کے رونے کی آواز آئی۔ معلوم ہوا کہ حالتِ نزع میں علمی مسئلہ پر بحث کرنے والے یہ عظیم انسان (امام ابو یوسف رحمہ اللہ) اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ اگر ان کے نزدیک علمی مذاکرے سے افضل کوئی اور کام ہوتا، تو وہ علمی مذاکرے کی بجائے ضرور اس کام میں مشغول ہوتے۔

في الظهيرية عن إبراهيم بن الجراح قال: دخلت على أبي يوسف فوجدته مغمى عليه ففتح عينه فقراني فقال يا إبراهيم أيما أفضل للحاج أن يرمي راجلا أو راكبا فقلت راجلا فخطأني ثم قلت راكبا فخطأني ثم قال ما كان يوقف عندها فالأفضل أن يرميها راجلا وما لا يوقف عندها فالأفضل أن يرميها راكبا قال فخرجت من عنده فما بلغت الباب حتى سمعت صراخ النساء أنه قد توفي إلى رحمة الله تعالى فلو كان شيء أفضل من مذاكرة العلم لاشتغل به في هذه الحالة [البحر الرائق، ج: ۲، ص: ۳۷۶؛ الجواهر المضيئة، ج: ۱، ص: ۷۶] [کثرت سے مطالعہ کرنے والے بزرگانِ دین، ص: ۷۷، ۷۸، ۷۹؛ بزرگانِ دین کا شوقِ مطالعہ، ص: ۶، ۷]

کتاب پڑھتے ہوئے جان دی علما نے کئی
یہی ہے مرنے کا انداز عاشقوں کا بھئی!

(جاری)

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔