عنوان: | ارکانِ اسلام: ستونِ حیات، سرچشمۂ نجات |
---|---|
تحریر: | غلام ربانی شرف نظامی، اٹالہ، الہ آباد |
اسلام کی مثال ایک خوبصورت عمارت کی سی ہے، جس کی بنیاد ایمان ہے اور جس کے ستون وہ پانچ ارکان ہیں جو اس عمارت کو قائم رکھتے ہیں۔ اگر یہ ستون مضبوط ہوں تو دین کی عمارت قائم و دائم رہتی ہے، اور اگر یہ ڈگمگانے لگیں تو ایمان و کردار کی دیواریں کمزور ہو جاتی ہیں۔ یہی وہ ستون ہیں جنہیں نبی رحمت ﷺ نے یوں بیان فرمایا:
بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ : شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ[صحیح البخاری: کتاب: الإيمان، باب: إِنَّمَا بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، حدیث نمبر: 8]
یعنی "اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکات دینا، حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا۔"
یہ ارکان محض عبادات نہیں بلکہ ایک ایسا جامع نظام ہیں جن سے فرد کو نورِ ایمان ملتا ہے، معاشرہ عدل و مساوات سے آراستہ ہوتا ہے، معیشت تطہیر پاتی ہے اور امتِ مسلمہ اتحاد و اخوت کے تاج سے مزین ہوتی ہے۔
- کلمہ طیبہ: ایمان کی بنیاد
یہ پہلا ستون ہے، گویا عمارت کی بنیاد ہے
مقصد
اللہ کی وحدانیت اور حضور ﷺ کی رسالت کا اقرار۔
فوائد و حکمت
یہ کلمہ دل کے اندھیروں کو اجالے میں بدل دیتا ہے، باطل کے سائے کو مٹا دیتا ہے اور انسان کو ایک خالق کے سامنے جھکا دیتا ہے۔ اس کی سماجی حکمت یہ ہے کہ سب کو ایک ہی نظریے پر جمع کر کے امت کو فکری و اعتقادی وحدت عطا کرتا ہے۔ - نماز: معراجِ مومن
نماز وہ ستون ہے جو بندے کو دن میں پانچ بار رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز کرتا ہے۔
مقصد
اللہ کی یاد اور بندگی کا عہد۔
فوائد و حکمت
نماز دل کو غرور سے پاک کرتی ہے، وقت کی پابندی سکھاتی ہے، اور جماعت کی صورت میں مساوات کا علم بلند کرتی ہے۔ ایک ہی صف میں بادشاہ اور مزدور، امیر اور غریب کھڑے ہو جاتے ہیں؛ گویا اسلام کا پیغام ہے کہ اصل درجہ بندگی میں ہے، دولت و منصب میں نہیں۔ - روزہ: صبر و تقویٰ کا درس
رمضان کے روزے گویا ضبطِ نفس کی مشق ہیں۔
مقصد
انسان کو خواہشات کا غلام نہیں بلکہ ان کا حاکم بنانا۔
فوائد و حکمت
بھوک اور پیاس کا ذائقہ چکھ کر روزہ غریبوں کی حالت کا احساس دلاتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی صرف کھانے پینے کا نام نہیں، بلکہ ضبط، ایثار اور صبر کا نام ہے۔ اس کا سماجی پہلو یہ ہے کہ پوری امت ایک ہی وقت میں بھوک برداشت کرتی ہے اور ایک ساتھ افطار کرتی ہے—یہ اتحاد کا عملی منظر ہے۔ - زکوٰۃ: معیشت کی طہارت
زکوٰۃ محض صدقہ نہیں بلکہ معاشی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
مقصد
مال کی پاکیزگی اور سماجی عدل۔
فوائد و حکمت
یہ امیروں کے دل سے حرص و بخل مٹاتی ہے اور غریبوں کے لیے خوشحالی کا دروازہ کھولتی ہے۔ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت پورے معاشرے میں گردش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ زکوٰۃ معاشی عدل، سماجی سکون اور انسانی مساوات کی ضامن ہے۔ - حج: امت کا اجتماع
یہ وہ عظیم عبادت ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمان ایک لباس، ایک زبانِ تلبیہ اور ایک مرکز پر جمع ہوتے ہیں۔
مقصد
اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور امت کی وحدت۔
فوائد و حکمت
حج میں مساوات کا عملی منظر نظر آتا ہے: نہ کوئی بادشاہ پہچانا جاتا ہے، نہ کوئی غریب؛ سب سفید لباس میں ایک ہیں۔ یہ اجتماع امت کو یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا کے ہر خطے سے آنے والے لاکھوں مسلمان ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں تو پوری امت بھی ایک نظریہ، ایک مقصد اور ایک قیادت پر متحد ہو سکتی ہے۔
مجموعی تجزیہ
ان پانچ ستونوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو ان میں فرد کی اصلاح بھی ہے، معاشرے کی بہتری بھی؛ معیشت کا توازن بھی ہے، سیاست کا شعور بھی؛ علم کی روشنی بھی ہے، اور عالمی اخوت کا پیغام بھی۔
(1)- کلمہ عقیدے کو درست کرتا ہے۔
(2)- نماز کردار کو سنوارتا ہے۔
(3)- روزہ نفس کو قابو میں لاتا ہے۔
(4)- زکوٰۃ معیشت کو سنوارتا ہے۔
(5)- حج امت کو متحد کرتا ہے۔
خلاصہ کلام
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ارکانِ اسلام وہ ستون ہیں جو دلوں کو نورِ ایمان سے روشن کرتے ہیں، گھروں کو سکون بخشتے ہیں، بازاروں کو عدل سے معمور کرتے ہیں اور امت کو اتحاد سے مزین کرتے ہیں۔ یہی ستون ہیں جو دنیا میں امن اور آخرت میں نجات کی ضمانت ہیں۔
24/ربیع الاول/1447
17/ستمبر/2025