| عنوان: | امانت اعلیٰ حضرت الحاج قاری امانت رسول علیہ الرحمہ |
|---|---|
| تحریر: | ابو تراب الحق شاہ محمد ریاض الحق علوی قادری، |
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
محترم قارئین کرام! آج کے اس پرفتن دور میں لوگ سستی شہرت، مال حرام، ناجائز تعلقات، دین سے بے رغبتی، فیشن پرستی کو اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں اور دین دار سچے، اچھے، نیک، شریعت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے والے صوم و صلوٰة کی پابندی کرنے والے کو حقیر سمجھتے ہیں۔ دراصل اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے مفلوج العقل ہیں، بد نصیب ہیں، انہیں دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ جسے یہ اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھ رہے ہیں اصل میں وہ ناکامی کی ضمانت ہے، جہنم کا راستہ ہے، خدا و رسول کی ناراضگی کا سبب ہے۔ حقیقی معنوں میں اصل کامیابی تو کچھ اور ہے۔ اگر حقیقی کامیابی سمجھنا ہے تو آئیے کلام اللہ کی طرف قرآن مقدس سے سمجھتے ہیں کہ اصل کامیابی کیا ہے اور کس میں ہے؟
چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَوٰتِهِمْ خٰشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَوٰةِ فٰعِلُونَ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حٰفِظُونَ
ترجمہ کنز العرفان: بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰة دینے کا کام کرنے والے ہیں اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ [المؤمنون: ١-٥]
سبحان اللہ! قرآن نے تو فیصلہ سنا دیا اور واضح کر دیا کہ اصل کامیاب کون لوگ ہیں۔
قارئین کرام! پتہ چلا کہ جو لوگ اللہ و رسول کے بتائے ہوئے طریقے کو اپنائیں گے شریعت کی پابندی کریں گے صوم و صلوٰة و دیگر فرائض و واجبات سنن و مستحبات پر سختی سے عمل پیرا ہوں گے وہی اصل کامیابی کے منزلوں کو طے کریں گے۔
حتیٰ کہ انسان کو زندگی ملی ہی اس لیے ہے کہ وہ اپنے رب کے احکام کے مطابق زندگی گزارے، انسان کی زندگی کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ اپنے حقیقی معبود یعنی رب تبارک و تعالیٰ کی عبادت کرے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہوا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے کہ میری عبادت کریں۔ [الذاریات: ٥٦]
گویا جس نے اللہ کی عبادت کو اپنے اوپر لازم کر لیا اس نے زندگی کے مقصد کو پا لیا اور جس نے زندگی کے مقصد کو حاصل کر لیا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گیا۔ قارئین کرام! اگر ہم نگاہ کو پھیلائیں اپنی نظر میں وسعت پیدا کریں تو ہمیں کئی ایسے اللہ کے نیک بندے نظر آئیں گے جو اللہ و رسول کی فرمانبرداری کر کے شریعت کی پاسداری کر کے کامیابی اپنے مقدر میں لکھوا چکے ہیں۔ انہی کامیاب لوگوں میں ایک نام امانت اعلیٰ حضرت، خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند، حسان الہند، حضرت علامہ مولانا الحاج قاری امانت رسول رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے۔
آپ قاری قرآن، پیر طریقت، رہبر شریعت، عالم شریعت، ثنا خوان مصطفیٰ، عاشق اعلیٰ حضرت و مفتی اعظم ہند تھے، تقویٰ و پرہیزگاری میں یکتائے زمانہ تھے اور ہوں بھی کیوں نہ کہ آپ مرید خاص بھی ایسی ذات کے تھے کہ جن کے تقوے کے متعلق چہار جانب یہ صدا آتی تھی:
متقی بن کر دکھائے اس زمانے میں کوئی
ایک میرے مفتی اعظم کا تقویٰ چھوڑ کر
حضرت قاری امانت رسول علیہ الرحمہ کی پیدائش 20 محرم الحرام 1377ھ پیلی بھیت شریف یوپی میں ہوئی اور 28 رمضان المبارک 1442ھ مطابق 11 مئی 2021ء بروز منگل 8 بج کر 11 منٹ پر بریلی شریف میں انتقال فرمایا۔
پیارے قارئین! اگر ہم حضرت قاری امانت رسول علیہ الرحمہ کی زندگی پر روشنی ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ آپ کو امانت اعلیٰ حضرت یوں ہی نہیں کہا جاتا آپ واقعی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی امانت ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حضرت قاری امانت رسول اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا فیضان ہیں اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی کرامت ہیں۔
حضرت قاری امانت رسول بچپن ہی سے بزرگوں کی صحبت میں رہے ان سے فیض حاصل کیا حتیٰ کہ آپ کا نام بھی بزرگوں نے تجویز فرمایا اور خطبہ نکاح حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے حکم پر حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان ازہری علیہ الرحمہ نے پڑھایا۔
بزرگوں کی صحبت نے بالخصوص نگاہ مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے ایسا کمال پیدا کیا کہ ظاہر و باطن پاک ہو گیا، ذات میں نکھار پیدا ہوا، حسن اخلاق سے مالامال ہوئے، نظر میں وسعت پیدا ہوئی، دل میں عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع جلنے لگی۔
حال یہ ہوا کہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی مدحت سرائی کرتے رہتے، فرائض و واجبات سنن و مستحبات کی پابندی کرتے، گویا کہ ہر وقت خدا و رسول کا ذکر کر کے اپنی زبان و قلب کو مصروف رکھتے۔
حضرت قاری امانت رسول مسلک اعلیٰ حضرت کے سچے سپاہی تھے، حقیقی معنوں میں ناشر مسلک اعلیٰ حضرت تھے، آپ نے اعلیٰ حضرت کی فکر کو عروج دیا ان کی تعلیمات کو ان کے مشن کو آگے بڑھایا اور تمام عمر مسلک اعلیٰ حضرت کی نشر و اشاعت کرتے رہے۔
آپ کے مبارک ہاتھوں پر بہت سوں نے توبہ کی اور کئیوں نے تو مذہب دیوبند وہابیہ کو چھوڑ کر سنیت کے دامن سے وابستہ ہوئے۔
آپ نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے ساتھ کئی سفر کیے سفر و حضر میں حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو نعتیہ دیوان سامان بخشش سے نعتیں سناتے اور حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ سن کر وجدانی کیفیت میں جھومتے۔
حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے قاری امانت رسول صاحب کی بڑی محبتوں شفقتوں سے روحانی تربیت فرمائی، اور ایک وقت وہ بھی آیا جب حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا اور روحانی بیٹا ارشاد فرمایا۔
ایک مرید کے لیے اس سے بڑھ کر سعادت کی بات کیا ہوگی کہ وہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو تو اپنے روحانی پیشوا یعنی اپنے پیرو مرشد کے ساتھ حاضر ہو۔
چنانچہ حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے ساتھ آپ نے حج کی سعادتیں حاصل کیں اور ساتھ ہی روضہ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر حاضر ہوئے۔
ایک دفعہ آپ تنہا سفر حج پر روانہ ہوئے تو حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے خلیفہ اعلیٰ حضرت قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ کے نام ایک خط بھیجا۔ جب قاری امانت رسول صاحب خط لے کر قطب مدینہ کی بارگاہ میں پہنچے تو آپ بار بار فرط مسرت سے اس خط کو چومتے اور خوش ہوتے اور فرماتے میرے پیر کا خط آیا ہے میرے مرشد کا خط آیا ہے۔
قطب مدینہ نے حضرت قاری امانت رسول صاحب بڑی عزت افزائی فرمائی اور رخصت ہوتے وقت بہت سے تحفے تحائف پیش کیے اور اجازت و خلافت سے بھی نوازا۔
حضرت قاری امانت رسول علیہ الرحمہ نے اپنے علاقے پیلی بھیت میں ایک ادارہ قائم کیا جس کا سنگ بنیاد امین ملت حضرت سید امین میاں برکاتی مارہروی اور حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے اپنے ہاتھوں سے رکھا۔ لوگ اسے الجامعۃ الرضویہ مدینۃ الإسلام کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں۔ آپ تمام عمر اس دینی گلشن کو سینچتے رہے اس کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ اور آج بھی یہ گلشن آباد ہے اور اپنی مہک سے عوام اہل سنت کو معطر کر رہا ہے۔
حضرت قاری امانت رسول علیہ الرحمہ نے کئی ایک کتابیں لکھیں نعتیہ دیوان لکھے، اپنی تحریروں کے ذریعے اپنی تقریروں کے ذریعے، اپنے تجربات و مشاہدات کے ذریعے عوام اہل سنت کو بھرپور فائدہ پہنچایا۔
اور صرف ظاہری حیات ہی میں نہیں بلکہ رحلت فرمانے کے بعد آج بھی لوگ روحانی فیض حاصل کر رہے ہیں۔
حضرت کا مزار پیلی بھیت شریف میں مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔
ہر سال عیسوی تاریخ کے اعتبار سے 28 اکتوبر کو خانقاہ امانتیہ پیلی بھیت شریف میں عرس اعلیٰ حضرت منایا جاتا ہے اور اسی میں عرس امانتی بھی شامل ہے، لوگ جوق در جوق مزار شریف پر حاضر ہو کر خود کو فیضیاب کرتے ہیں۔
اس وقت آپ کے جانشین خلیفہ حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا رضائے رسول امانتی صاحب قبلہ ہیں جو کہ حضرت قاری امانت رسول صاحب کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
اللہ پاک! صاحبزادہ علامہ رضائے رسول صاحب أطال اللہ عمره کے بازوؤں میں زور و قوت عطا فرمائے۔
اور حضرت قاری امانت رسول علیہ الرحمہ کی مرقد پر انوار و تجلیات کی بارشیں نازل فرمائے، درجات بلند فرمائے، اور ہم سب کو امانتی فیضان سے مالامال فرمائے۔ آمین
8 اکتوبر 2025ء بروز بدھ
