دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

بیٹیوں سے بے رخی کیوں؟

بیٹیوں سے بے رخی کیوں؟
عنوان: بیٹیوں سے بے رخی کیوں؟
تحریر: محمد الطاف رضا اشرفی

گر نہ ہوتی خیر والی پیاری پیاری بیٹیاں
رب رسول اللہ ﷺ کو ہرگز نہ دیتا بیٹیاں

رات کے ایک سے زائد ہو چکے ہیں شریک حیات نیند کے آغوش میں جا چکی ہیں میں بھی نیند کا منتظر تھا کہ قوم کی بیٹیوں کی بربادی یعنی مرتد ہونے کی طرف دھیان چلا گیا۔ ان کی بربادی کے اسباب میں نظر دوڑائی جو اکثر ہی غمِ امتِ محبوبِ من صلی اللہ علیہ وسلم میں دوڑاتا رہتا ہوں تو ایک وجہ صاف سامنے آئی سوچا اسے قلم بند کروں، شاید میری تحریر سے کوئی گھر بدل جائے، کسی جانب بہار آئے۔ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر رحم فرما۔ آمین بجاہ خاتم النبین صلى الله عليه و آله وسلم

احباب وہ سبب ہے بیٹیوں سے بے رخی۔ رحم و کرم کی نگاہ ان کی طرف نہ ڈالنے کی بیماری۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک لڑکی جوان ہو کے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ اتنی آسانی سے کر لیتی ہے۔ میری کمزور نگاہ نے جب معاشرے میں نگاہ ڈالی تو پایا کہ بیٹیوں کو بیٹوں سے نیچے رکھا جاتا ہے، بغیر کسی دینی شرف و فضیلت کے، فقط بیٹا ہونے کے سبب لڑکوں کو بیٹیوں سے اعلیٰ، با کمال اور نہ جانے کون کون سی کرسیوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ کھانے کی کوئی اچھی چیز ہو یا احترام کا کوئی محل ایسا لگتا ہے بیٹا پیدائشی طور پر تمام اکرام و انعام کا حقدار ہے۔

ہرگز نہیں ہرگز نہیں میرے دین کی یہ تعلیم نہیں، میرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام نہیں۔ اگر یہ مرض میں کسی غیر مسلم کے گھر میں دیکھتا تو اتنی تکلیف نہ ہوتی کیوں کہ ان کے پاس قرآن نہیں ان کے پاس خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لیکن یہ بیٹیوں سے بے رخی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے کریں اللہ کی پناہ اللہ کی پناہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہماری آنکھوں سے مکمل اوجھل ہو گئی ہے؟ کیا ہم تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹیوں کو عزت و محبت دینے والی روایتیں نہیں پہنچیں؟ یہ ظلم و زیادتی اس صنف نازک پر کیوں روا رکھا گیا ہے؟ خدا کے فضل سے ہمارے کچھ گھر اس تاریکی سے محفوظ ہیں لیکن بیچاری بیٹیاں بہت سے جگہ پر مظلوم بنی بیٹھی ہیں۔

میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ میری بہنوں پر ظلم ہو، انہیں حقیر سمجھا جائے تو وہ گھر چھوڑ دیں بلکہ انہیں تو میں دعوت صبر دوں گا کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اے کنیز تو حالات کا زخم کھا مگر رب اور رسول سے دور نہ ہونا عنقریب موت آئے گی اور تیرے لیے تحفہ ثابت ہوگی تو صبر پر جمی رہ۔ یہ چند دنوں کے لیل و نہار ہیں عنقریب موت آنی ہے ضرور آنی ہے ہرگز ایمان اور تقویٰ کا سودا نہ کرنا۔

مجھے تو ان غافل والدین تک اپنی بات پہنچانی ہے جنہوں نے نہ علم دین دیا اپنی بچیوں کو نہ خوف خدا دیا نہ شوق عبادت کا ہنر ہی اور اوپر سے انہیں حقیر نگاہوں سے، سخت کلمات سے، وہ بوجھ ہیں اس تصور سے، ان کے سامنے اور پیٹھ پیچھے بھی بیٹے کے طرف ہر وقت کے لپکنے نے ان مہکتی پھولوں کو مسل کر ایسا بیکار کر دیا کہ جس سے ہم کیا امید کریں ایسے خوشبوؤں کی جو چمنِ ملت میں پھیل رہی بدبوؤں میں سکون کا کوئی سامان کرے۔

خوف خدا اور ایمان کی اہمیت سے بے خبری تو تھی ہی، ساتھ ہی گھر والوں کی بے التفاتی نے شیطان اور نفس امارہ کا کام بڑا آسان کر دیا، اس بیٹی کو جسے اگر پیار اور اکرام سے اپنے سینے سے لگایا گیا ہوتا تو شاید وہی بیٹی ماں باپ کے لیے اپنی زندگی داو پر لگا دیتی لیکن چونکہ معاملہ بر عکس ہوا تو آج ماں باپ کی عزت کی ذرہ برابر فکر کئے بنا اپنے گھر سے نکل کر ایک نئی اور بہتر زندگی کی امید میں اپنا سارا سرمایہ کھو رہی ہے۔

اپنی درد کی کہانی سمیٹنے لگا ہوں کچھ گزارشات کے ساتھ درندوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی بھولی بھالی بچیوں کے لیے جہاں بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے وہیں یہ کام بھی کیے جائیں ان شاء اللہ تعالیٰ فائدہ ہوگا۔

  1. گھر میں عدل و انصاف کا ماحول ہو تمام بچوں میں۔
  2. بیٹیوں کو بیٹوں کی مانند نعمت الٰہی سمجھا جائے۔
  3. ان پر بھی خاص نگاہِ محبت و الفت ڈالی جائے۔ ان سے بیٹوں کی طرح پیار کیا جائے۔
  4. انہیں کسی بھی معاملے میں بیٹوں سے کمتر نہ شمار کیا جائے۔
  5. الفاظ سے ہو یا انداز سے ہر طرح سے انہیں بیٹوں جیسا رتبہ دیا جائے۔

یا اللہ رات کی تاریکی میں لکھی گئی اس تحریر کو محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے باعث نور کر دے۔
آمین بجاہ خاتم النبین صلى الله عليه و آله وسلم

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔