| عنوان: | صبر نظامِ حیات کے آئینے میں |
|---|---|
| تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
| پیش کش: | ادارہ لباب |
صبر نظامِ حیات کا ایک ناگزیر حصہ ہے، جس کا التزام زندگی کے حسن سے لطف اندوزی کے لیے ضروری امر ہے۔ نظامِ عالم کا بنظرِ غائر مشاہدہ کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس کائنات کے مکمل نظام میں صبر ہی کی کارفرمائی ہے۔
ہر شے ایک محدود وقت کے حصار میں ہے، جس سے نکلنا ناممکن ہے۔ صبر ہی کائنات کو ایک منظم اور ہم آہنگ انداز میں کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔
سورج اپنی تمازت سے روشنی بکھیرنے کے لیے شب کے گزرنے کا منتظر ہوتا ہے۔ چاند، تارے اور سیارے اپنے مدار میں رہ کر اپنے سفر کی تکمیل کرتے ہیں۔ شجر پھل دینے کے لیے مقررہ مدت کے محتاج ہوتے ہیں۔ موسموں کا رنگ معینہ وقت پر ہی تبدیل ہوتا ہے۔ پہاڑ اپنی بلندیوں پر قائم رہنے کے لیے لاکھوں سال کی زمینی تبدیلیوں کو خاموشی سے برداشت کرتے ہیں۔ دریا اپنے طویل سفر میں رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے سمندر تک پہنچنے کے لیے مسلسل بہتے رہتے ہیں۔ ہر ننھا بیج زمین کی گہرائیوں میں تیرگی اور تنہائی کو برداشت کر کے ہی تناور درخت بنتا ہے۔
مختصر یوں کہہ لیں کہ کائنات کا ہر ذرہ اور ہر نظام اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ایک لامتناہی وقت کے سفر پر گامزن ہے۔ کائنات کی ہم آہنگی اور حسن میں صبر ہی کے جلوے کارفرما ہیں۔ صبر ہی کائنات کے اس وسیع و عریض نظام کو باہم مربوط رکھتا ہے۔ یہ سب صبر کے جلوے اور تحمل کے کرشمے ہیں۔ کوئی دیکھے تو سہی، چشم وا ہو تو نظر آئے کہ صبر کی روشنی میں ہی عالمِ حیات کے حسن و جمال کا ادراک و احساس ممکن ہے۔
نظامِ کائنات کی طرح نظامِ حیات کا توازن بھی صبر کے اردگرد ہی گردش کر رہا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو اور ہر موڑ پر صبر کے کرشمے جلوہ گر نہ ہوں تو زندگی اپنا حسن و وقار کھو بیٹھے۔ صبر ایک ایسا جوہر ہے جسے خلاقِ کائنات پسند فرماتا ہے۔ حدیثِ شریف میں ہے:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے ایک صحابی حضرت الاشج رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
إن فیک خصلتین یحبهما الله تعالیٰ: الحلم والاناة۔ (صحیح مسلم، 1: 48، الرقم: 17)
ترجمہ: تمہارے اندر دو خصلتیں اور خوبیاں ایسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں پسند فرماتا ہے، اور وہ حلم اور صبر ہے۔
صبر کو اللہ رب العزت نہ صرف پسند فرماتا ہے بلکہ صابر کو اپنی معیت سے سرفراز بھی فرماتا ہے، جس کا واضح اعلان قرآنِ مقدس نے فرما دیا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (سورة البقرة، ۱۵۳)
ترجمہ: بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
حق تعالیٰ کی معیت سے سرفرازی انسان کو دارین کی نعمتوں سے بہرہ ور کرتی ہے۔ جس کے ساتھ رب ہو، اُسے سب حاصل ہے۔
لہٰذا اگر ہم اپنی حیات کو صبر کے جلوؤں سے مزین کر لیں تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں تابناک ہو جائیں گی، اِن شاء اللہ العزیز۔ اللہ رب العزت ہمیں صبر جیسی نعمتِ بے بہا سے بہرہ ور فرمائے۔ آمین ثم آمین، بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
