عنوان: | روح کا نصب العین اور دل کی بقا |
---|---|
تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
پیش کش: | ادارہ لباب |
شوقِ محبوب، حیات کی سُروں کا وہ ناگزیر ساز ہے جس کے بغیر زندگی کے ہر نغمے خام، ناقص اور بے روح ہوتے ہیں۔ یہ ساز، کائنات کے حسن کا وہ منشور ہے جو زندگی کے بے رنگ حقائق کو اپنی حقیقی ارجمندی اور رعنائی و زیبائی سے روشناس کراتا ہے۔ یہی وہ الہامی ہنر ہے جو ہمیں حسنِ حیات کے جلوؤں سے لطف اندوزی کا فن سکھاتا ہے۔
محبوب کی محبت ہی اصل روح ہے، اور جو دل محبت کے جوہر سے منور ہوجائے، وہ زوال کے دائرے سے نکل کر بقا کے منازل طے کرتا ہے۔ محبت ہی وہ حیاتِ جاوداں ہے جو فنا کے داغ سے داغدار نہیں بلکہ بقا کی نعمت و لطف سے سرشار ہے۔
جیسا کہ پیرانِ پیر، شیخ المشائخ، حضور غوث الاعظم جیلانیؒ اس راز کی نقاب کشائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بَقَاءُ الْقَلْبِ فِي الْحُبِّ، وَفَنَاؤُهُ فِي غَيْرِهِ۔
ترجمہ: دل کی بقا محبت میں ہے، اور اس کی فنا محبت کے سوا ہر چیز میں ہے۔
محبت ہی روح کی منزلِ مقصود اور اس کا نصب العین ہے، کیونکہ یہ اسے اصل سے وصل کراتی ہے۔ صوفیا فرماتے ہیں:
کُلُّ شَيْءٍ يَرْجِعُ إِلَى أَصْلِهِ، وَأَصْلُ الرُّوحِ هُوَ الْحُبُّ۔
یعنی ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے، اور روح کی اصل ہی محبت ہے۔
محبت، زندگی ہے، نور ہے، عرفان ہے، آگہی ہے، شعور ہے، ادراکِ کامل ہے اور روح کی وہ معراج ہے جو اسے تمام حدود و قیود سے آزادی بخشتی ہے۔ مگر لائقِ غور بات یہ ہے کہ محبت کسبی ہنر نہیں، یہ تو بس عطائے ایزدی ہے، فضلِ بے کراں ہے، غایتِ احسان ہے۔ یہ وہ عنایتِ بے انتہا ہے جو ہر کس و ناکس کے حصے میں نہیں آتی۔ عشق تو محض عطیۂ خداوندی ہے جس کا نزول قلوبِ صافیہ پر ہوتا ہے۔
جیسا کہ رومی فرماتے ہیں:
أَيُّهَا العَاشِقُ، أَنْتَ لَمْ تُبْحَثْ عَنِ العِشْقِ، بَلِ العِشْقُ بَحَثَ عَنْكَ۔
اے عاشق! تم نے عشق کو نہیں ڈھونڈا، بلکہ عشق نے تمہیں ڈھونڈا ہے۔
عشق محض جذبہ نہیں بلکہ ایک مکمل وجود ہے۔ یہ محض طلسمِ ہوش رُبا نہیں، حقیقتِ لاریب ہے، اور یہی وجود اور حقیقت انسان کو مکمل کرتی ہے اور اسے اپنے حقائق سے روبرو کراتی ہے۔
محبت کی کل کائنات، جلوۂ محبت کے سوا کچھ اور نہیں۔ اس کی حتمی حقیقت محض محبوب کا جلوہ ہے۔ محبوب کی جفا بھی وفا ہے، اس کا ستم بھی کرم ہے۔ اس کی جانب سے ملنے والا کرب، دل پر سجا تمغہ ہے، اور اس راہ میں ملنے والا ہر درد وہ شرف ہے جو ہر گدا کو نصیب نہیں ہوتا۔
اور یہی سوز، راہِ عشق میں پگھل کر قندیلِ فروزاں بنتا ہے۔ جو لذتِ کرب سے آشنا نہ ہوا، وہ کاہے کا آشنا؟ کرب ہی تو عشق کا معیارِ حقیقی اور حصۂ ناگزیر ہے۔ کربِ عشق کی آگ میں جل کر ہی انسان خاک سے کیمیا بنتا ہے۔
دل میں جب تک نہ درد پیدا ہو
رُوح کا راز آشکار نہیں
نیز۔۔۔۔
عشق کا معیار ہے سوز و گداز
تو ابھی کچا ہے، گر بسمل نہ ہو