دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

نوجوان وہی ہے جس کی ہمت جوان ہے

عنوان: نوجوان وہی ہے جس کی ہمت جوان ہے
تحریر: مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا
پیش کش: ادارہ لباب

کم ہمتی سے کیوں نہ ہو توہینِ زندگی
انسان کا وقار تو عزمِ جہاں میں ہے

انسان کے شباب اور پیری کا معیار اس کی عمر کے اعداد نہیں، اس کے عزائم و مقاصد کی کمزوری اور مضبوطی ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کا شباب اس کے عزائم، ہمت اور بلند اہداف کے گرد گردش کرتا ہے۔

اس کی پہچان اس کا جسم نہیں، روح ہے؛ چہرہ نہیں، کردار ہے۔ ہر ڈھلتی عمر کا مطلب ڈھلتا عزم نہیں ہوتا، سفیدی میں ڈھلتے بال کامیابی کے اختتام پر دال نہیں۔

اور ابنِ عقیل بن حنبلی رحمہ اللہ کا یہ قول اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتا ہے:

كَشَفَ ابنُ عَقِيلٍ الحَنْبَلِيُّ العِمَامَةَ عَنْ رَأْسِهِ فَإِذَا فِيهِ شَيْبٌ، فَقَالَ تِلْمِيذٌ لَهُ: شِبْتَ؟ وَكَانَ مِنَ الثَّمَانِينَ مِنْ عُمْرِهِ، فَأَنْشَدَ قَائِلًا:

ترجمہ: جب ابنِ عقیل حنبلی رحمہ اللہ نے اپنی پگڑی سر سے ہٹائی تو اس میں سفید بال نظر آئے۔ ان کے ایک شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا: آپ بوڑھے ہو گئے ہیں۔

اس وقت ابنِ عقیل رحمہ اللہ کی عمر اسی سال تھی۔ شاگرد کے اس سوال پر انہوں نے یہ اشعار کہے:

مَا شَابَ عَزْمِي وَلَا حَزْمِي وَلَا خُلُقِي
وَلَا وَلَائِي وَلَا دِينِي وَلَا كَرَمِي
وَإِنَّمَا اعْتَاضَ شَعْرِي غَيْرَ صِبْغَتِهِ
وَالشَّيْبُ فِي الشَّعْرِ غَيْرُ الشَّيْبِ فِي الْهِمَمِ

ترجمہ: میری ہمت، سنجیدگی، اخلاق، وفاداری، دین اور سخاوت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ صرف میرے بالوں نے اپنا رنگ بدلا ہے، کیونکہ بالوں کی سفیدی اور ہوتی ہے اور ارادوں اور حوصلوں کی سفیدی اور۔

انسان کی جسمانی ساخت اس کی اصل نہیں ہے۔۔۔ بلکہ اس کی حقیقت اس کے تصورات و نظریات ہیں۔۔۔ اس کی اصل اس کی روحانیت میں مضمر ہے۔۔۔ اور انسان کی پہچان بھی اس کے جسمانی اعضاء سے نہیں بلکہ اس کے افکار و تخیلات اور کردار و مقاصد سے ہوتی ہے۔

تو جس کے ارادے زمانۂ شباب میں ہی کمزور پڑ گئے وہ بوڑھا ہو گیا۔۔۔ اور جس کے عزائم و ہمت پیرانہ سالی میں بھی جوان رہیں، فی‌الواقع نوجوان وہی ہے۔

اسی مناسبت سے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ای برادر تو هماں اندیشہ ای
ما بقی تو استخوان و ریشہ ای

ترجمہ: اے بھائی! تو بس وہی ہے جو تو سوچتا ہے۔ تیرے باقی سب ہڈیاں اور ریشے ہیں۔

لہٰذا اپنی جسمانی ساخت پر توجہ نہ دیں بلکہ اپنے عزائم و کردار بلند کریں، اپنے افکار کشادہ اور عالی بنائیں۔ اور کوشش کریں کہ اپنے پیچھے اپنی خدمات کے کچھ سنہرے اور پائیدار نقوش و آثار چھوڑ جائیں جو آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوں۔

اب یہ خواہ آپ کی عملی اور مالی خدمات ہوں، یا علمی کاوشیں، تحاریر ہوں، تصانیف ہوں، تالیفات ہوں یا پھر آپ کے تربیت یافتہ شاگرد۔ بہرحال کچھ ضرور چھوڑ جائیں۔ اللہ ہمارے دلوں میں خدمتِ خلق کا تلاطم خیز جذبہ نصیب فرمائے۔ آمین۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔