دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

ضرورتِ نبوت (قسط: دوم)

عنوان: ضرورتِ نبوت (قسط: دوم)
تحریر: علامہ سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ
پیش کش: زوبیہ اویسی بنتِ طفیل احمد

استدراک

شاید اس بیان کی روشنی میں ضرورتِ نبوت کے ساتھ اجراءِ نبوت کا شبہ پیدا کر لیا جائے، اس لیے گزارش ہے کہ ضرورتِ نبوت سے اجراءِ نبوت ہرگز لازم نہیں آتا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے مطابق خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو اس وقت مبعوث فرمایا جب نوعِ انسانی اپنی حیات کے منازل طے کرتی ہوئی ایسے مرحلے پر پہنچ گئی تھی کہ اس کے لیے جو نظام مقرر کیا جائے، قیامت تک اس کی تمام ضروریات کے لیے وہی قابلِ عمل ہو۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدہ: 3)

میں نے آج تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا، اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کر لیا۔

یہ ارشادِ خداوندی منکرینِ ختمِ نبوت کے اس شبہے کا قلع قمع کرنے کے لیے کافی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبوتِ محمدیہ ﷺ کے دامن سے ایسا دین وابستہ ہے جو قیامت تک پیش آمدہ ضروریات کے پورا ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔ نبوت و رسالتِ محمدیہ ﷺ ہی بنی نوعِ انسان کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بعد کسی کو نبوت دیا جانا متصور نہیں۔ ضرورتِ نبوت کے لیے اجراءِ نبوت کو لازم سمجھنا اکمالِ دین کے منافی ہے۔

ضرورتِ نبوت کے بعد حکمتِ بعثت پر بھی غور کرتے چلیں تاکہ عصمت و نبوت کا اہم تعلق اور زیادہ واضح ہو جائے۔

بعثتِ انبیاء کی حکمتیں

قرآنِ کریم میں بعثتِ انبیاء علیہم السلام کی حکمتیں بکثرت آیات میں بیان کی گئی ہیں، جن میں بعض حسبِ ذیل ہیں:

(1) وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ (سورۃ النساء: 63)

(2) وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ (سورۃ الانعام: 48)

(3) وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (سورۃ الاحزاب)

(4) مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (سورۃ النساء: 80)

(5) لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (سورۃ آلِ عمران: 164)

یہ آیاتِ مبارکہ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد اللہ کی اطاعت کروانا، آخرت کی خوش خبری دینا، عذابِ الٰہی سے ڈرانا، اطاعتِ رسول کو اطاعتِ خدا قرار دینا، آیاتِ الٰہیہ کی تلاوت کرنا، ایمان والوں کے ظاہر و باطن کو پاک کرنا، اور کتاب و حکمت کی تعلیم دینا ہے۔

ان مقاصد پر غور کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نبوت کے ساتھ عصمت لازم ہے، کیونکہ جس منصب کے لیے کامل صلاحیت درکار ہو، وہ بغیر صلاحیت عطا کیے نہیں دیا جاتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے منصبِ نبوت کے ساتھ وہ تمام قوتیں اور صلاحیتیں بھی انبیاء علیہم السلام کو عطا فرمائی ہیں جن کا ہونا ضروری تھا، اور یہی عصمتِ نبوت کا مفہوم ہے۔ نبوت بغیر عصمت کے ایسی ہے جیسے بینائی کے بغیر آنکھ اور روشنی کے بغیر سورج۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔