عنوان: | ارشد تو ارشد ہی تھے |
---|---|
تحریر: | بنت اسلم برکاتی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
سر زمینِ پورہ (ضلع بلیا) پر ایک بچے کی ولادت ہوئی۔۔۔ آنکھ کھولتے ہی، شدید بیماری نے گھیر لیا۔۔۔ والدین نے بزرگوں کی غلامی میں دے دیا۔۔۔ اللہ کے فضل سے جلد ہی بچہ صحت یاب ہو گیا۔۔۔ بچپن سے ہی دینی ماحول ملا۔۔۔ والد صاحب سچے عاشق رسول ﷺ اور بزرگانِ دین کے عقیدت مند تھے۔۔۔ تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع ہوا۔۔۔ لیکن والدہ صاحبہ کے انتقال کے سبب یہ سلسلہ رک گیا۔۔۔
والد صاحب کے ساتھ دکان پر بیٹھنے لگے۔۔۔ پر کہیں نہ کہیں پڑھائی نہ کر پانے کا افسوس رہتا۔۔۔ ایک دن کسی نے طعنہ زنی کی۔۔۔ دل پر بات لگی۔۔۔ جب تڑپ سچی ہو، تو رب تبارک و تعالیٰ راستے بنا ہی دیتا ہے۔۔۔ خیر۔۔۔! حصول علم دین کے لیے، بلا خوف و خطر گھر سے بھاگنے کا پلان بنایا اور ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن۔۔۔ دوسرے اسٹیشن سے تیسرے۔۔۔۔ آخر کار منزل مقصود تک پہنچ ہی گئے۔
کچھ وقت وہاں علم دین حاصل کیا۔۔۔ لیکن جب پیاس شدید ہو، تو گھونٹ گھونٹ سے بجھتی نہیں۔۔۔! برادر اکبر نے جب یہ محسوس کیا تو۔۔۔ علم کے سمندر سے پیاس بجھانے کے لیے روانہ کر دیا۔۔۔ یعنی کہ جامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور بھیج دیا۔
کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ۔۔۔۔ جامعہ کے چندے کے لیے۔۔۔۔ نظم لکھنے کو طلبہ سے کہا گیا۔۔۔ علم نہ ہونے باوجود کوشش کی۔۔۔ اور گیارہ سال کی عمر میں پہلی ہی نظم ایسی لکھی کہ۔۔۔۔ حضور حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ کے عزیز ہو گئے۔
جامعہ میں تعلیم و تعلم کے علاوہ کوئی دوسرا مشغلہ نہ تھا۔۔۔ اور نہ ہی باہر کی دنیا کی خبر۔۔۔ حضور حافظ ملت رحمتہ اللہ علیہ کی شفقت و محبت سے طالب علمی کا دور بھی مکمل ہوا۔۔۔ فراغت کے بعد بھی آپ نے جامعہ کے لیے انتھک محنتیں کی۔۔۔ چندے کے لیے رات دن ایک کر دیے۔
کچھ وقت ناگ پور میں درس و تدریس کی خدمت سر انجام دی۔۔۔ وہاں پر صرف بچوں کو پڑھانے پر ہی اکتفا نہیں کیا۔۔۔ بلکہ عربی تکلم پر بھی خوب زور دیا۔۔۔ اور آپ کی محنت رنگ لائی۔۔۔۔ اپنے نام کی طرح، امت مسلمہ کی رشد و ہدایت کے لیے۔۔۔ جا بجا مدارس قائم کروائے۔
اتنی زیادہ مصروفیات کے باوجود بھی حضور حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ کے ایک حکم پر حاضر ہو جاتے تھے۔۔۔ دین کا درد، قوم و ملت کی فلاح و بہبود کی فکر میں نا جانے کتنی راتیں، اللہ کریم کی بارگاہ میں، پھوٹ پھوٹ کر رو کر گزاریں۔
یہ کوئی عام شخصیت نہیں۔۔۔۔ بلکہ حضور حافظ ملت کے شاگرد خاص۔۔۔ حضرت ارشد القادری علیہ الرحمہ کی داستان ہے۔۔۔ یہ سب فیضان رضا ہی تھا۔۔۔۔ جو صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے منتقل ہوتا ہوا۔۔۔ حضور حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے۔۔۔ سینہ با سینہ۔۔۔۔ حضرت ارشد القادری علیہ الرحمہ کو ورثے میں ملا۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ حضرت کی قبر پر نور کی برسات ہو، اور ان کے صدقے ہم سبھی کو بھی دین، قوم و ملت کی خوب خدمت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!