| عنوان: | دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے |
|---|---|
| تحریر: | مفتیہ نازیہ فاطمہ |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
ہماری زندگی آج بے شمار فکریں، پریشانیاں، مصیبتیں اور الجھنوں سے بھری ہے۔ لوگ سکون کی تلاش میں دولت، شہرت، حکومت یا طاقت کے پیچھے بھاگتے ہیں، مگر یہ سب وقتی خوشی تو دے سکتے ہیں، مگر حقیقی سکون نہیں۔ اگر دولت سے سکون ملتا تو قارون کو ضرور ملتا، جو اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اگر حکومت میں سکون ہوتا تو فرعون و نمرود برباد نہ ہوتے۔ اگر شہرت سکون دیتی تو ابوجہل بے سکون نہ مرتا۔
انسان نے سکون کے لیے کئی راستے اپنائے، مگر ان میں کہیں آخرت برباد ہوئی، کہیں صحت، وقت اور مال ضائع ہوا، اور کہیں دوسروں کا سکون برباد کر دیا۔ مگر پھر بھی حقیقی سکون نہیں ملا۔
سوال یہ ہے کہ سکون آخر ملے گا کہاں؟
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الَّذِیْنَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ، أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 28)
ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں۔ سن لو! اللہ کے ذکر ہی میں دلوں کا سکون ہے۔
اللہ کا ذکر محبتِ الٰہی، قربِ الٰہی اور سکونِ قلب کا ذریعہ ہے۔ یہ ذکر انسان کے بے چین دل کو قرار دیتا ہے۔ دعا، قرآن، اسمائے الٰہی کا ورد سب ذکرُ اللہ میں شامل ہیں، جو دل سے وسوسے اور شکوک دور کرکے سکون عطا کرتے ہیں۔
اللہ کا ذکر دل کو زندگی بخشتا ہے، روح کو غذا دیتا ہے، چہرے پر نور لاتا ہے اور انسان کے اندر اطمینان، فرحت اور انبساط پیدا کرتا ہے۔ ذکر کا نور دنیا میں بھی ساتھ رہتا ہے اور قبر میں بھی۔
جو جتنا اللہ کا ذکر کرے گا، اللہ کے اتنا قریب ہوگا۔ اور جو غفلت کرے گا، اتنی ہی دوری میں چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں اور روحوں کو اپنی یاد سے منور فرما دے۔ آمین یا رب العالمین۔
