عنوان: | خاموش در و دیوار اور چیختی عورت |
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
ہر دن، ہر گھنٹہ، ہر لمحہ۔کہیں نہ کہیں کوئی عورت چُپ چاپ ظلم سہہ رہی ہوتی ہے۔ کبھی کسی بند کمرے میں چیخیں دب جاتی ہیں، تو کبھی کسی برآمدے میں آنکھیں سوالی ہو جاتی ہیں۔ معاشرہ دیکھتا ہے، اخبار چھاپتا ہے، لوگ افسوس کا تبصرہ لکھ کر اگلی پوسٹ کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ مظفر پور سے دہلی تک، کان پور سے کولکاتا تک، وہی کہانیاں، وہی ظلم، وہی بے بسی۔۔۔۔۔ جیسے عورت کے ساتھ جُڑے دکھوں کو ایک نسل سے دوسری نسل کے حوالے کیا جا رہا ہو۔
یہ کوئی ایک خبر نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ وہ عورت جسے شریکِ حیات کہا گیا، آج اسی کی زندگی کی سانسوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ مرچ پاؤڈر اس کے جسم سے نہیں، انسانیت کی آنکھوں سے بہہ رہا ہے۔ گرم لوہے کے نشان صرف جسم پر نہیں، ہمارے سماج کی پیشانی پر بھی ثبت ہو چکے ہیں۔ یہ مظالم کسی اندھیرے غار کی داستان نہیں، ہمارے سامنے کی سچائی ہے، جسے ہم نے نارمل مان لیا ہے۔
معاشرہ دیکھنے والا، لیکن سننے سے قاصر
ہمارے ارد گرد بے شمار لوگ بستے ہیں، مگر جیتے کتنے ہیں؟ وہ ماں جو بیٹی کے لیے لڑ نہیں سکتی، وہ باپ جو بیوی کی چیخوں کو خاندان کی عزت میں چھپا دیتا ہے، وہ بھائی جو بہن کی فریاد پر نظریں چُرا لیتا ہے، اور وہ شوہر جو رشتۂ تحفظ کو سزا میں بدل دیتا ہے۔۔۔۔۔ ہم سب اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ کبھی گاؤں کی سنسان گلی میں ایک عورت کو ننگا کر کے مارا جاتا ہے، اور وہاں کے درخت تک چُپ رہتے ہیں۔ کبھی شہر کی روشن سڑکوں پر ایک بچی کی چیخیں سنائی دیتی ہیں، اور وہاں کے بِل بورڈ بھی نظریں چُرا لیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے سننے کی حس کھو دی ہے۔ ہم صرف تماش بین بن گئے ہیں، جنہیں حادثات تب تک دکھائی دیتے ہیں جب تک کیمرہ آن ہو۔
مردانگی جو عورت کی حفاظت کرے، نہ کہ اسے روند ڈالے
اب وقت آچکا ہے کہ ہم مردانگی کا نیا مفہوم تراشیں۔ مرد وہ نہیں جو اونچی آواز میں گرجے، نہ ہی وہ جو کمزور کو چپ کرا دے۔ اصل مرد وہ ہے جو عورت کے آنسو کو آنکھ میں نہ ٹھہرنے دے۔ وہ جو ہاتھ بلند کرے، مگر صرف اس کی حفاظت کے لیے۔ وہ جو صبر کرے، سمجھے، اور برداشت کرے۔نہ کہ شک کے نام پر اپنی مردانگی کو تشدد میں بدل دے۔ سچ کہیے، کیا یہ طاقت ہے کہ ایک عورت کو قید کر کے، بھوکا رکھ کر، جلا کر، اس کی عزت کو ریزہ ریزہ کیا جائے؟ نہیں! یہ بزدلی ہے۔اور بدترین بزدلی وہ ہے جو کمزور کو روند کر اپنی بڑائی محسوس کرے۔ دنیا کو ایسے مردوں کی ضرورت ہے جو عورت کو صرف جسم نہ سمجھیں، بلکہ ایک مکمل وجود، ایک احساس، ایک کائنات مانیں۔
اگر ہم واقعی کچھ بدلنا چاہتے ہیں، تو ہمیں لفظوں سے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس معاشرے کو اب ویسے مردوں کی ضرورت ہے جو آواز بنیں، دیوار بنیں، اور عورت کے سائے پر بھی آنچ نہ آنے دیں۔