عنوان: | مرتد ہوتی بیٹیاں ایمان کا سودا یا وقت کا زہر |
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
یہ کون سا راستہ ہے جو تم نے چنا ہے؟ یہ کیسی چمک ہے جس نے تمہیں اندھا کر دیا ہے؟ کبھی ماں باپ کی دعاؤں کی چھاؤں میں پلنے والی بیٹیاں، آج انہی کے پیروں تلے سے زمین کھینچ کر دوسروں کے قدموں میں کیوں بچھ رہی ہیں؟ یہ تم ہی ہو جو کبھی عید کے چاند پر دوپٹہ اوڑھ کر شکرانے کا سجدہ کرتی تھیں، آج تم بےپردگی کی انتہا پر جا کر “آزادی” کے نام پر اپنے وجود کا سودا کر رہی ہو۔
کیا یہی وہ عزت ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنے خون سے چراغ جلائے تھے؟ کیا یہی وہ راستہ ہے جس کے لیے نبی کی آل نے کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار پر سجدے دیے تھے؟ نہیں، یہ وہ راہ نہیں جس پر تمہیں چلنا تھا۔ تم مرتد ہو رہی ہو، اور تمہیں خود خبر نہیں۔
یہاں ایک لڑکی ایمان چھوڑ کر غیر مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے، وہاں ایک بیٹی پردے کو ترقی کی راہ کی رکاوٹ سمجھتی ہے، یہاں ایک طالبہ داڑھی والے استاد کو دقیانوسی قرار دیتی ہے، وہاں ایک خاتون علم کے نام پر لبرل ازم کو اپناتی ہے۔
یہ سب یونہی نہیں ہو رہا۔ یہ ایک طے شدہ سازش ہے۔ تمہارے ذہن، تمہاری زبان، تمہاری چال، تمہاری نظر۔۔۔سب کو یرغمال بنایا جا چکا ہے۔ اور تم خوش ہو، یہ سوچ کر کہ تم “آزاد” ہو۔
نہیں بیٹی! تم آزاد نہیں، تم غلام ہو۔اپنے نفس کی، دنیا کے جھوٹے وعدوں کی، اور اس سسٹم کی جو تمہاری روح کو مار کر تمہیں صرف جسم بنا دینا چاہتا ہے۔ کاش تمہیں معلوم ہوتا کہ ایمان کیا ہوتا ہے۔ کربلا کے میدان کو صرف پڑھنے کی چیز نہ سمجھو،
اگر محرم الحرام کے ہر دن کو دل سے محسوس کرو، تو تمہیں یزیدیت کے چہرے ہر اس انسان میں دکھائی دیں گے جو تمہیں دین سے ہٹانے کی بات کرتا ہے، جو تمہیں فیشن کے نام پر ننگا کرتا ہے، جو تمہیں “محبت” کے نام پر ایمان سے جدا کرتا ہے۔
ارے بیٹیو! جس وقت علی اصغر کا لاشہ باپ کے ہاتھوں پر تڑپ رہا تھا، اس وقت حسین کے پاس ہزار دلیلیں تھیں کہ اب بس کر دوں"۔۔۔۔ مگر نہیں! انہوں نے سر کٹوا دیا، مگر سجدہ نہیں چھوڑا۔ کیا تمہیں شرم نہیں آتی جب تم نماز قضا کرتی ہو؟ جب تم دین کی بات پر ہنستی ہو؟ جب تم میں مرتد ہو چکی ہوں کہہ کر فخر محسوس کرتی ہو؟
کیا تمہیں عباس کے بازو یاد ہیں؟
اور تم؟ تم صرف ایک رشتہ، ایک پیار، ایک وعدہ، یا ایک مہنگا تحفہ پا کر اپنا ایمان چھوڑ دیتی ہو؟ کیا تم نے سوچا بھی کہ تم اللہ سے کتنی دور ہو چکی ہو؟ یہ محض تمہاری گمراہی نہیں، یہ تمہاری آئندہ نسلوں کی قبر کھودنے کا آغاز ہے۔
جب ایک بیٹی ایمان چھوڑتی ہے، تو اس کا ہر بچہ اس دین سے ناآشنا ہوتا ہے جس کے لیے کسی نے پتھروں کی بارش سہی تھی، کسی نے پانی کے بے غیر تین دن گزارے تھے، کسی نے بیٹیوں کے سامنے اپنا سر کٹوایا تھا۔ بیٹیو، پلٹ آؤ۔ ابھی وقت ہے، تمہارا رب تمہیں ہر دن ایک اور موقع دے رہا ہے۔ تمہیں مسجد بلاتا ہے، توبہ کی طرف کھینچتا ہے، قرآن کے حرفوں میں تمہارے لیے سکون رکھتا ہے۔
لیکن یاد رکھو، جب یہ دروازہ بند ہو جائے گا، تو پکارنے کے لیے نہ زبان ہو گی، نہ دعا کے لیے وقت، اور نہ معافی کے لیے مہلت۔ یہ مضمون ایک سوال ہے، تم سے، تمہارے ضمیر سے، تمہارے اس اللہ سے جسے تم بھول چکی ہو۔ اگر تم نے پلٹنا ہے، تو آج ہی پلٹ آؤ۔ ورنہ کل کا دن تمہارا نہیں ہو گا۔