دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

محبت کی نہیں، نکاح کی طلب گار بنو

عنوان: محبت کی نہیں، نکاح کی طلب گار بنو
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

عورت جسے اللہ تعالیٰ نے «لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا» کا مرکز بنایا، جو سکون کا پیکر تھی، جسے نکاح کی برکتوں سے عزت، تحفظ اور پاکیزگی کا حصار عطا کیا گیا، آج اُسی عورت کو اشتہار، شوق، تفریح، اور مرد کی نظر کی تسکین کے لیے بازار کی زینت بنا دیا گیا ہے۔ اور افسوس! یہ سب اُسے ترقی اور آزادی کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلام میں عورت کا مقام تاج و تخت سے بلند، اور پردے میں محفوظ موتی کی مانند ہے۔ مگر آج کی دنیا نے اُسے اشتہارات کے بینر پر، مارکیٹنگ کی مہم میں، سوشل میڈیا کی ویڈیوز میں اور نائٹ شوز کے اسٹیج پر لا کھڑا کیا۔ وہ جو حیاء کا تاج پہنے ہوئے تھی، آج اپنی شرم کو ہنسی کا نشانہ بنا چکی ہے، اور بدلے میں اسے خودمختاری کا لقب دیا جا رہا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا، وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ (ابن ماجہ:4181)

ہر دین کی ایک خصلت ہوتی ہے، اور اسلام کی خصلت حیاء ہے آج کی عورت کو اس کے گھر سے نکال کر کام کی جگہوں پر بٹھایا گیا، اسے کہا گیا کہ مرد کے شانہ بشانہ چلو۔ مگر کیا ہم نے اسے وہ تحفظ دیا جو اسلام دیتا ہے؟ نہیں۔ ہم نے اسے صرف وہ لباس دیا جو آنکھوں کو بھاتا ہے، وہ مسکراہٹ جو برانڈز بیچتی ہے، اور وہ لہجہ جو پیش کش بن جاتا ہے۔

عورت اب اپنی قیمت خود لگا رہی ہے۔اپنی آواز، اپنی شکل، اپنی چال، اپنے لباس اور حتیٰ کہ اپنے وقار کو نیلام کر رہی ہے، تاکہ کسی مرد کی توجہ حاصل کر سکے، تاکہ وہ کہہ دے: ہاں، تم میرے قابل ہو! اور افسوس! یہ قیمت صرف وقتی تسکین کی ہوتی ہے، نکاح، ذمہ داری، وفا، یا اولاد کی تربیت کی نہیں۔

یہ وہی عورت ہے جو پہلے نکاح کی دہلیز پر قدم رکھتی تو مرد فخر محسوس کرتا، اب اگر وہ اپنی پاکیزگی کا پیغام لے کر کسی مرد کے پاس جائے تو وہ ہنستا ہے، نظر پھیر لیتا ہے، اور شاید اپنے دوستوں میں اس کے جذبے کو تضحیک کا نشانہ بھی بناتا ہے۔ یہ ہے محبت کا نیا دور! یہاں مرد بادشاہ ہے اور عورت گلیوں کی رونق، یہاں عشق جسموں کے گرد گھومتا ہے اور روحیں اداس، خالی، بے وقار رہ جاتی ہیں۔

قرآن چیخ چیخ کر کہتا ہے:

وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ (الاحزاب: 33)

ترجمہ کنزالایمان: اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔

مگر آج سوشل میڈیا پر وہی جاہلیتِ اولیٰ کے مناظر جدید فیشن، ترغیب، اور ایکسپریشن کے نام پر دہرائے جا رہے ہیں۔ عورت کو بتایا جا رہا ہے کہ وہ خود کفیل ہے، جب کہ حقیقت میں وہ خود کو بیچنے والی بن چکی ہے۔

اے مسلم خاتون! تو وہی ہے جس کے حیا پر رسول اللہ ﷺ نے فخر کیا، جس کی پاک دامنی پر قرآن نے گواہی دی، جس کے پردے کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا۔ تو خود کو بازار کی زینت مت بنا، تو سیدۃ النساء اہل الجنۃ (جنتی عورتوں کی سردار) فاطمہ الزہرا کی وارث ہے، تو مریم علیہا السلام کی عبادت، خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفا، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی علمیت کی وارث ہے۔

تو اپنے آپ کو بیچ مت! کیوں کہ جو چیز بکنے لگے، وہ عزت نہیں، ضرورت بن جاتی ہے۔ اور ضرورت ختم ہو جائے تو لوگ اسے پھینک دیتے ہیں۔

  1. محبت کا اصل مقام نکاح ہے۔
  2. وقار کا اصل مقام پردہ ہے۔
  3. اور عزت کا اصل راستہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہے۔

آج کے مرد کا پیار صرف وقتی ہے، کیوں کہ وہ جسم چاہتا ہے، ذمہ داری نہیں۔ مگر اگر تو اپنی حیاء بچا لے، تو ربّ العالمین تجھے ایسا شوہر دے گا جو تیرے لیے جنت کا ذریعہ ہو گا۔

تو بکے نہیں، سنورے۔ تو جھکے نہیں، اُبھرے۔ تو روئے نہیں، اللہ سے لو لگائے۔ کیوں کہ تیرا حسن اس وقت کامل ہے، جب وہ صرف تیرے شوہر کے لیے ہو، اور تیرا رشتہ صرف رب کی رضا کے لیے ہو۔

آج بھی وقت ہے۔ لوٹ آئیں، ورنہ وہ دن دور نہیں جب محبت، عزت، اور نکاح صرف کتابوں کی کہانیاں بن جائیں گی، اور عورت بازار کی ایک پراڈکٹ!

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔