✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

نمازی ماں کی گود

عنوان: نمازی ماں کی گود
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بچے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ کیا اس کی وجہ ٹی وی، موبائل، یا ماحول ہے؟ یا اصل محرک وہ ماں ہے جو خود نماز کے وقت دو رکعت میں دنیا سمیٹنا چاہتی ہے؟ وہ ماں جو خود آذان کے دوران باورچی خانے میں کھڑی ہے، اور بیٹے کو کہتی ہے: بیٹا! چپ رہو، اذان ہو رہی ہے! مگر بچے کو سکھانے والا کوئی عملی لمحہ موجود نہیں۔

اسلام نے تربیتِ اولاد کو فرض کے درجے میں رکھا ہے، اور سب سے پہلا سبق نماز۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ (سنن ابی داود: 495)

ترجمہ: اپنے بچوں کو سات برس کی عمر میں نماز کا حکم دو۔

یہ حکم محض سجدے جھکانے کا نہیں، بلکہ بچوں کے دلوں میں عبادت کا شوق، حیا کی جڑیں، وقت کی قیمت، اور اللہ سے محبت راسخ کرنے کا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ آج کی مائیں بظاہر عبایہ اوڑھ کر موجود ہیں، مگر ان کے بچے فیشن کے جھولے میں سجدے کی شرم سے خالی۔ شرٹ چھوٹی، پاجامہ تنگ، سر ننگا، اور ماں کہتی ہے: چھوٹا ہے ابھی، شوق ہے لباس کا۔ تو پھر حیاء کا بیج کون بوئے گا؟

یاد رکھیں! آٹھ سال کی عمر تک بچہ ماں کے مکمل اختیار میں ہوتا ہے۔ جو ماں آج کہے: شادی پر یہ لباس پہن لو، اسکول میں یہ بچہ پہن لے گا لیکن وہی کل یہ نہ کہہ سکے گی: اب حیا سے نماز پڑھو۔ بچے ڈبل اسٹینڈرڈ نہیں سمجھتے، وہ ڈائریکٹ تضاد سمجھتے ہیں، اور پھر وہی تضاد ان کی فطرت میں رچ بس جاتا ہے۔

اب ہمیں کیا کرنا ہوگا؟

ماں خود نماز کے وقت لباس، خشوع اور سکون کا عملی نمونہ بنے اذان کے وقت خاموش ہو جائے، تاکہ بچہ عملی ادب سیکھے، نہ کہ صرف زبانی لیکچر۔ بچے کو نماز سے پہلے نہلائے، خوشبو لگائے، کہ بیٹا! آج اللہ سے ملاقات ہے۔ بچیوں کے لباس میں چادر، اور لڑکوں کی قمیض مکمل ہو۔ورنہ نماز نہیں، مذاق ہے۔ نماز کے اوقات سے پہلے بچوں کو وضو، مسواک، اور تیاری کا مزہ دلائیں، کہ ہم سب سے پہلے جائیں گے اللہ کے سامنے!

سائنس کیا کہتی ہے؟

سائنس کی تحقیق ہے کہ 7 سے 10 سال کی عمر بچوں میں توجہ، ذمہ داری، اور جذباتی تربیت کے لیے سب سے اہم دور ہوتا ہے۔

ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ: بچپن میں جو عبادات کا معمول سکھایا جائے، وہ عمر بھر کا شعور بن جاتا ہے۔اگر وہ محبت سے ہو، ڈانٹ سے نہیں۔ نماز جسمانی، جذباتی اور ذہنی توازن سکھاتی ہے۔ پانچ بار سجدے۔پانچ بار ری سیٹ!

قرآن کہتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم: 6)

ترجمہ کنزالایمان: اے کافرو! آج بہانے نہ بناؤ تمہیں وہی بدلہ ملے گا جو کرتے تھے۔

بچوں کو آگ سے بچانے کا مطلب صرف ان کے مستقبل کا بندوبست نہیں، ان کے ایمان، اخلاق اور عبادات کی حفاظت ہے۔ ماں صرف کھانے پکانے والی نہیں، وہ نسلوں کی معمار ہے۔ اگر ماں فیشن میں ہے، شو بز کی باتوں میں ہے، اور صرف زبان سے تبلیغ کرتی ہے، تو پھر بچے فطرت سے محروم ہو جائیں گے۔

مدینہ میں بچوں کی تربیت کا کوئی انسٹیٹیوٹ نہ تھا۔ نہ کوئی نرسری، نہ ڈے کیئر، نہ ایپلیکیشنز۔ مگر وہی مدینہ ایسی مائیں پیدا کر گیا کہ، انس بن مالک، ابن عمر، زید بن ثابت، عروہ بن زبیر جیسے ایمانی بچے پہاڑ سے زیادہ مظبوط ہوگیے۔

آج جب ہمارے گھروں میں سب کچھ ہے، پھر نسلیں کیوں خالی ہیں؟ شاید وجہ یہ ہے کہ ہماری ماں خود تربیت سے خالی ہے۔

اللہ ہمیں وہ شعور، وہ محبت، اور وہ استقامت دے، جس سے ہم اپنے گھروں کو سجدہ گاہوں میں بدل دیں، اور اپنی اولاد کو رب کی طرف جھکنے والا دل عطا کر سکیں۔ آمین، ثم آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں