عنوان: | رات کا آخری پہر |
---|---|
تحریر: | حبیب البشر مصباحی |
پیش کش: | الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ |
یہ وہ لمحہ ہے جس میں کائنات ایک الگ ہی خاموشی اوڑھ لیتی ہے۔ فضا میں سکوت ہے، لیکن اس سکوت میں سرگوشیاں پوشیدہ ہیں۔ مشرق کی سمت ہلکی ہلکی سی سفیدی ابھر رہی ہے، تارے ابھی بھی اپنی آخری ٹمٹماہٹ کے ساتھ آسمان پر موجود ہیں، اور چاند، اپنے نور کے آخری قطرے زمین پر نچھاور کر رہا ہے۔ یہ سب جیسے کسی وصال کی تمہید ہو۔ وہ لمحے جب بندہ اور رب آمنے سامنے ہوتے ہیں۔
یہ دعا کی گھڑی ہے، قبولیت کی گھڑی۔ ایک ایسا وقت، جب دل کا ہر زخم ایک نئی التجا بن کر لبوں سے پھوٹتا ہے۔ آنکھیں نم ہیں، الفاظ الجھے ہیں، لیکن دل ایک یقین سے بھرا ہے۔شاید آج وہ لمحہ ہے جب سب بگڑا ہوا سنور جائے گا۔ آج دل کی حالت کچھ مختلف سی ہے، کچھ کھویا ہوا لوٹ آنے کی امید ہے، اور کچھ بے سکونی ہے جو صرف سجدے میں ہی چین پاتی ہے۔
نہ جانے کیوں آج سورج طلوع ہونے میں دیر کر رہا ہے۔ شاید ابھی کسی کی دعا کا جواب باقی ہے۔۔۔ فضا میں اب ایک لطیف تبدیلی آ رہی ہے۔ آسمان کی سفیدی کچھ اور بڑھ گئی ہے، چاند مدھم ہوتا جا رہا ہے، اور ستارے ایک ایک کر کے نظروں سے اوجھل ہو رہے ہیں۔ یہ کائناتی مناظر کسی قدرتی نظارے سے بڑھ کر ایک روحانی پیغام رکھتے ہیں۔ یہ تقسیمِ رزق کا وقت ہے۔
پرندے ایک ایک کر کے اپنے گھونسلوں سے نکلنے لگے ہیں۔ ان کی چہچہاہٹ میں جیسے کوئی فطری دُعا پوشیدہ ہے۔ وہ اپنے بچوں کو نصیحت کرتے معلوم ہوتے ہیں: اے میرے لختِ جگر! ان گھونسلوں کو نہ چھوڑنا، یہ تنکوں سے بنے ضرور ہیں، مگر ان میں تحفظ ہے، ماں کی ممتا ہے، باپ کی محنت ہے۔
ایک لاتعداد پرندوں کا غول ہوا میں تیرنے لگا ہے۔ ہر ایک اپنی اپنی تلاش میں، اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن۔ کوئی دانے کے پیچھے، کوئی پانی کی تلاش میں، اور کوئی صرف اپنے ہونے کا ثبوت دینے کے لیے اُڑتا ہوا۔
اسی وقت، دور کسی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوتی ہے۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر. دل دھڑک اُٹھتا ہے، رب کا بلاوا ہے۔ وقت ہے سجدے میں جھکنے کا، گناہوں کے بوجھ کو آنسوؤں کے ساتھ دھونے کا۔
اور اسی لمحے، ایک کسان اپنے کھیت کی طرف، ایک مزدور اپنی مزدوری کی جانب، اور ایک ماں اپنے بچوں کے لیے ناشتہ تیار کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے۔ یہ صبح صادق صرف کائنات کی تبدیلی نہیں، یہ انسان کی نئی جدوجہد کا آغاز ہے۔