دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

شفاعت کا طلب گار کون؟

عنوان: شفاعت کا طلب گار کون؟
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

آج کا انسان، خصوصاً نوجوان، دنیا کی رنگینیوں میں ایسا مگن ہو چکا ہے کہ وہ یہ بھول بیٹھا ہے کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے۔ وہ دینِ اسلام کا امتی تو ہے، مگر عملی زندگی میں اسلام اس کے طرزِ عمل سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

غفلت کی روشنی میں گناہوں کی تاریکی: جس نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی امت کی فلاح کے لیے وقف کر دی، آج اسی نبی کے امتی اُن کی تعلیمات سے منہ موڑ کر غیر شرعی تعلقات، فیشن پرستی، اور نفس کی پیروی میں مصروف ہیں۔ رابطے کے ذرائع نے فاصلے کم کیے مگر غیر محرم سے تعلقات بڑھا کر حیاء اور ایمان کو تباہ کر دیا۔ ایسے نوجوان جن کی زندگی خواہشات کے تابع ہے، وہ کس منہ سے شفیعِ محشر صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے طلب گار ہوں گے؟

قرآن کی صدائیں آج بھی زندہ ہیں

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں واضح حکم دیا:

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ- وَسَآءَ سَبِیْلًا ( بنی اسرائیل: 32)

ترجمۂ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ، بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

جب قرآن پاک آج بھی ہمیں پکار رہا ہے، تو ہمیں رک کر سننے، سوچنے اور پلٹنے کی ضرورت ہے۔

شفاعت انہی کے لیے ہے جو وفادار ہوں

شفاعت محض نسب یا نام سے نہیں، بلکہ اطاعت و وفاداری سے نصیب ہوگی۔ جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو ترک کرکے خواہشات کے پیچھے دوڑیں، وہ شفاعت کے مستحق کیسے ہو سکتے ہیں؟

واپسی کی راہ بند نہیں

اللہ کی رحمت کی سب سے حسین بات یہ ہے کہ وہ واپسی کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ جس نے دل سے توبہ کی، جس نے موت کو یاد رکھ کر گناہوں سے رجوع کیا، اللہ اسے شیطان کی قید سے آزاد فرما دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیثِ نبوی ہے:

قال رسول اللہ ﷺ: التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ۔ (ترمذی: 2499)

ترجمہ: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔

آج ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اس نبی کی امت ہیں جنہوں نے فرمایا:

عَنْ جَابِرٍ ـ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ ـ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَوْقَدَ نَارًا، فَجَعَلَ الْجَنَادِبُ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهَا، وَهُوَ يَذُبُّهُنَّ عَنْهَا، وَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، وَأَنْتُمْ تَفَلَّتُونَ مِنْ يَدِي۔ (صحیح مسلم: 2284)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اور تمہاری مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، تو پروانے اور کیڑے اُس میں گرنے لگے، اور وہ (شخص) انہیں آگ سے بچا رہا تھا، اور میں تمہیں (گناہوں سے) بچانے کے لیے تمہاری کمر پکڑ رہا ہوں، اور تم ہو کہ میرے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہو۔

اب بھی وقت ہے! نفس کی غلامی چھوڑ کر، رب کی بندگی اختیار کریں۔ غیر محرم کے ربط سے بچ کر، حیاء کے دامن کو تھام لیں۔ شفاعت چاہتے ہو؟ تو پھر اطاعت کو لازم کر لو۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری شفاعت میرے امتی کے لیے ہے جو کبیرہ گناہ کرے اور توبہ کرے۔

اللہ رب العزت ہم سب کو شفاعتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نصیب فرمائے۔ آمین، یا رب العالمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں