دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

نصیحت پردہ پوشی یا بے پردہ تنقید؟

عنوان: نصیحت پردہ پوشی یا بے پردہ تنقید؟
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

زمانہ بدل گیا ہے، رشتے بدل گئے ہیں، اور نصیحت کرنے کا ڈھنگ بھی بدل گیا ہے۔ آج نصیحت کے نام پر برائی کو اچھالنا فیشن بن چکا ہے۔ کسی کی لغزش دیکھ کر اُسے چھپانے کے بجائے رسوا کرنا معمول بن گیا ہے، اور زبان پر یہی جملہ ہوتا ہے:

ہم تو صرف نصیحت کر رہے ہیں! یہ طرزِ عمل نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ اور دلوں کی دوری کا بھی سبب ہے۔

امام فضیل بن عیاض کا قول ہمیں جھنجھوڑ دیتا ہے:

جو اپنے بھائی میں برائی دیکھتا ہے، پھر بھی اُس کے منہ پر مسکراتا رہتا ہے، تو وہ اُس کے حق میں خیانت کا مرتکب ہے! (المدهش، 1/219)

لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فوراً سب کے سامنے اُس کی برائی بیان کر دیں؟ یا ہمیں اُس کی اصلاح تنہائی میں کرنی چاہیے؟ یہی وہ سوال ہے جس پر آج کے مضمون میں روشنی ڈالیں گے۔

قرآنِ مجید فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ (الحجرات 12)

ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

یہی اسلامی تعلیم ہمیں سکھاتی ہے کہ بھائی کی برائی کو بازار میں مت اچھالو، بلکہ محبت سے اُس کی اصلاح کرو۔

حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ القِيَامَةِ رَوَاهُ مُسْلِم (مسلم:2699)

جو شخص کسی مسلمان (بھائی) کی پردہ پوشی کرے، اللہ قیامت کے دن اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ نصیحت کی نیت سے بھی اگر کسی کی برائی کو سب کے سامنے بیان کر دیا جائے تو وہ پردہ پوشی کے خلاف ہے اور غیبت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی فرماتے ہیں:

کسی کی برائی کو سب کے سامنے بیان کرنا فساد اور فتنہ ہے۔ نصیحت کا اصل طریقہ یہ ہے کہ اُسے تنہائی میں سمجھایا جائے، تاکہ اُس کی عزتِ نفس محفوظ رہے اور اصلاح کا امکان بڑھ جائے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 23، صفحہ 217)

صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی لکھتے ہیں:

نصیحت کی نیت سے بھی اگر لوگوں میں کسی کی برائی کی تشہیر کی جائے تو یہ نصیحت نہیں، بلکہ غیبت ہے، اور اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ (بہارِ شریعت، حصہ 16، صفحہ 523)

اگر کسی کو سب کے سامنے نصیحت کی جائے تو اُس کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔ وہ ضد میں آ کر مزید بگڑ سکتا ہے، جب کہ اصل مقصد تو اُس کی اصلاح ہے، نہ کہ رسوائی۔

ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں:

کسی کو تنہائی میں سمجھانے سے اُس کی اصلاح کا امکان بڑھ جاتا ہے، جب کہ سب کے سامنے اُس پر تنقید کرنے سے اُس کے دل میں ضد، غصہ اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔

سوشل میڈیا پر کسی کی چھوٹی سی غلطی کو سب کے سامنے لا کر کہہ دیتے ہیں: ہم تو نصیحت کر رہے ہیں!

جب کہ دراصل یہ غیبت، بہتان، اور دوسروں کو شرمندہ کرنے کا کھیل ہے۔ یہ طرزِ عمل امت کو جوڑنے کے بجائے توڑ دیتا ہے، رشتے بگاڑ دیتا ہے، اور اسلام کی خوب صورتی کو داغ دار کر دیتا ہے۔

اللہ رب العزت شریعت کی روشنی میں اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں