عنوان: | تربیت یا دہشت گردی |
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
بچپن۔۔۔ ایک خوش بو، ایک رنگ، ایک کھلکھلاتی ہوئی دنیا۔ مگر ذرا سوچئے، جب اسی بچپن کے دامن میں ہر طرف خوف کی کانٹے بو دیے جائیں، تو کیا وہ پُر امن، پُر سکون بچہ پروان چڑھ سکے گا؟
ہم نے جانے انجانے میں بچوں کو پالنے کا ایک طریقہ اپنا لیا ہے، جسے ڈراؤ، دباؤ، سدھاؤ۔
والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈر ایک وقتی خاموشی تو لا سکتا ہے، لیکن وہ کردار نہیں بناتا۔ خوف بچے کو فرماں بردار تو بنا سکتا ہے، مگر اعتماد سے محروم کر دیتا ہے۔
ایسے بچے، جو مسلسل خوف میں پلے ہوں، وہ اکثر سچ چھپاتے ہیں، اپنے جذبات سے کتراتے ہیں، اور اپنی بات والدین سے کہنے سے گھبراتے ہیں۔ وہ تنہائی پسند ہو جاتے ہیں، اور اندر ہی اندر ٹوٹتے چلے جاتے ہیں۔
جب ماں باپ، جو بچے کے لیے سب سے محفوظ پناہ گاہ ہونے چاہییں، خود ہی خوف کی علامت بن جائیں، تو بچے کو دنیا میں اور کہاں جائے پناہ ملے گی؟
محبت سے، نرمی سے، فہم و فراست سے سمجھایا جائے تو بچے نہ صرف بات سمجھتے ہیں بلکہ دل سے قبول کرتے ہیں۔ انہیں اپنی غلطی کا شعور بھی ہوتا ہے، اور اصلاح کی خواہش بھی۔
یاد رکھیے، تربیت کا اصل حسن خوف میں نہیں، فہم میں ہے۔ سزا میں نہیں، شفقت میں ہے۔ تربیت وہ آئینہ ہے جس میں بچہ اپنا آپ پہچانتا ہے۔ اور اگر وہ آئینہ خوف سے دھندلا جائے، تو بچہ کبھی خود کو واضح دیکھ ہی نہیں پائے گا۔
اللہ رب العزت ہمیں اس ذمہ داری کو محبت، حکمت اور بصیرت کے ساتھ نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین ﷺ