✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

بیک وقت چار شادی؟

عنوان: بیک وقت چار شادی؟
تحریر: قدسی شمیم قادری
پیش کش: مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد

اسلام ایک فطری دین ہے جس کے اصول و قوانین کی پیروی کرکے دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس دین میں شرم و حیا جو ایمان کا ایک جز ہے جس کو کافی اہمیت و فضیلت حاصل ہے حیا جس انسان کے اندر موجود ہو وہ ناجائز و حرام اور نامناسب باتوں سے بچ سکتا ہے۔ اور بے حیائی ایسی چیز ہے جو عند اللہ نا مقبول اور مردود ہے۔ اور سارے جہان کا خالق و مالک نہ بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور نہ اسے محبوب رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (سورة النحل، آیت نمبر ۹۰)

ترجمہ: بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو۔

عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ باپردہ اور حیادار ہے۔ پھر فطرت انسانی اس بات کو قبول نہیں کرتی ہے کہ ایک عورت بیک وقت چند مردوں کا فراش بنے گویا کہ یہ عادت و حرکت حیاء کے خلاف ہے۔ اور انتہائی قسم کی بےحیائی اور شرمناک ہے۔ پھر مذہب اسلام جو حقوق انسانی کا تحفظ ضامن اور حسب و نسب کی پاکیزگی اور شفافیت کا قائل اور اختلاط النسب کا مخالف ہے کہ اختلاط نسب ، تنازع ، جھگڑا اور فساد کا سبب اور سماج و معاشرہ میں ننگ و عار کا باعث ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایک عورت کے چار مرد ہوں گے اور ان سے جو اولاد ہوگی اس کا باپ کون ہوگا۔ یہ فرق و امتیاز تشکل ہے۔ جو موجب فساد و بگاڑ ہے۔ اور اللہ تعالٰی فساد کو پسند نہیں کرتا ہے اور جب ایک مرد کی چار بیبیاں ہوں گی تو ان کی اولاد کا نسب ایک باپ سے ثابت ہوگا جوکہ موجب برکات ہے نہ باعث فساد۔ اس لئے حفظان نسب لڑائی جھگڑا اور فساد و تنازع سے دور رکھنے کے لئے عورت کو بیک وقت چار شادیوں کی اجازت نہیں دیتا۔

تحریر کردہ اسباب کے علاوہ بھی کئی خرابیاں ہیں مثلا : رشتوں میں تلخیاں ، گناہ و معصیت کی عورتوں کو کھلی آزادی اور انسانی زندگی کے نظام کو درہم برہم کرنا ہے۔

مذکورہ فتنوں کے سدباب اور عورت کی عزت و آبرو اور بھیڑئے قسم کے انسان کے ہاتھوں ننگ ہونے سے بچانے کے لئے ایک عورت کو چار شادی کی اجازت نہیں۔

اب تمہید کی روشنی میں چند اقول روایتوں کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔`

سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانے میں کچھ عورتوں نے اتفاق کر کے چار چرب زبان عورتوں کو اپنا نمائندہ منتخب کیا کہ وہ جاکر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کریں کہ امیر المؤمنین جب ایک وقت میں ایک مرد چار عورتیں رکھ سکتا ہے تو ایک عورت چار مرد کیوں نہیں رکھ سکتی۔ اسلام ایک عادل مذہب ہے کیا یہ عورتوں پر ظلم نہیں کرتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ان کی شرارت کو بھانپ لیا اور آپ نے زبانی کلامی جواب دینے کے بجائے ایک صاف شیشی منگوائی اور چاروں عورتوں کو الگ الگ پانی دے کر فرمایا اپنا اپنا پانی اس میں ڈالو۔ جب وہ تعمیل ارشاد کر چکیں تو آپ نے ارشاد فرمایا " اپنا اپنا پانی پہچانو! انہوں نے اچنبھے سے کہا "

یا امیر المؤمنین! پانی کی ہیئت تو ایک ہی طرح ہے اور اس کی ماہیت بھی ایک تو اس کا پہچاننا کیوں کر ممکن ہو گا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا "بس یہیں ٹھہر جاؤ "

مادہ منویہ کی ہیئت بھی ایک ہی طرح کی ہوتی ہے اور اس کی ماہیت بھی ایک، ایسا نہیں کہ کالے مرد کا مادہ تولید کالا اور گورے مرد کا مادہ سفید ہو تو جس طرح ایک شیشی میں اپنے اپنے پانیوں کو شناخت (کرنا) محال ہے اسی طرح جب ایک رحم کے اندر متعدد آدمیوں کی منی جمع ہو گی جس سے استقرار حمل (صل مخبر نا) ہو گا پھر جب بچہ پیدا ہو گا تو اس کی پہچان بھی ناممکن اور اس کی نسبت کا تعین محال ہو جائے گا۔ بات معقول تھی سب عورتوں کی سمجھ میں آگی اور وہ خوش خوش لوٹ گئیں۔

روایت مزکورہ سے صاف طور پر واضح ہو گیا کہ ایک عورت کے ایک سے زیادہ مرد ہوں گے تو نسب کا امتیاز مشکل ہو جائے گا۔ پھر اس کی کفالت و پرورش متاثر ہوگی اور اس کی حیات تنگ ہو جائے گی۔ اس لئے خیر و فلاح اسی میں ہے کہ ایک ہی شوہر ہو تاکہ پیدا ہونے والی خرابیوں سے وہ عورت بچے۔

اسی طرح امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت کے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے جو اسی عنوان کے تعلق رکھتا ہے کہ، ایک مرتبہ کچھ عورتوں نے سوال کیا کہ جب مرد کو چار نکاح کرنے کی اجازت ہے تو پھر عورت کو کم از کم دو شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں؟ آپ نے کہا کہ اس کا جواب کسی اور وقت دوں گا۔ اور اس الجھن میں گھر کے اندر تشریف لے گئے اور جب آپ کی صاحب زادی حنیفہ نے الجھن کی وجہ دریافت کی تو آپ نے عورتوں کا سوال پیش کر کے فرمایا کہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہوں اور میری الجھن کا یہی سبب ہے۔ یہ سن کر صاحب زادی نے عرض کیا کہ اگر آپ اپنے نام کے ہمراہ میرے نام کو بھی شہرت دینے کا وعدہ کریں تو میں ان عورتوں کا جواب دے سکتی ہوں اور جب آپ نے وعد کر لیا تو صاحب زادی نے عرض کیا کہ ان عورتوں کو میرے پاس بھیجواد بیجئے، چنانچہ جب وہ عور تھیں آگئیں تو صاحب زادی نے ایک پیالی ہر عورت کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ اپنی اپی پیالی میں تم سب تھوڑا تھوڑا سا اپنا دودھ ڈال دو۔ اس کے بعد ایک بڑا پیالہ ان کو دے کر کہا کہ اب سب پیالوں کا دورہ اس میں ڈال دو اور جب عورتوں نے یہ عمل کیا تو آپ نے فرمایا کہ اب تم سب اس میں سے اپنا اپنا دودھ نکال لو لیکن عورتوں نے عرض کیا کہ یہ تو ناممکن ہے۔ صاحب زادی نے عرض کیا کہ جب دو شوہروں کی شرکت میں تمہاری اولاد ہو گئی تو تم یہ کیوں کر چا سکوں گی کہ یہ اولاد کسی شوہر کی ہے اس جواب سے وہ عورتیں ششدر رہ گئیں اور امام صاحب نے اسی دن سے ابو حنیفہ کی کنیت اختیار کرلی اور اللہ تعالی نے بھی نام سے زیادہ کنیت کو شہرت عطاکی ۔

ان و اقوال و تبصرہ کی روشنی میں عموما ساری عورتیں خصوصا اسلامی عورتوں کو ایک پیغام ہے کہ وہ اپنے دین و شریعت پر سختی سے قائم رہے اور اغیار کے بے جا سوالات اور ان کے ناپاک منصوبہ کا شکار نہ بنیں۔ اور پیارے آقا ﷺ کی پاکیزہ شریعت میں جو چیزیں حلال و حرام کے درجے میں ہے ان پر عمل کریں۔

اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم بھی مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ہمارا رب جب بھی ہمیں کوئی حکم دیتا ہے تو اسے اس کی تمام باریکیوں کا پہلے ہی علم ہوتا ہے۔ اس نے خود ہی کہاہے :

اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَؕ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۠ ( الملک: 14)

یعنی: کیا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا اور وہی ہے ہر باریکی جانتا خبردار۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں