| عنوان: | ضرورتِ نبوت (قسط: اول) |
|---|---|
| تحریر: | علامہ سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ |
| پیش کش: | زوبیہ اویسی بنتِ طفیل احمد |
کل کائنات کی ضروریات، ضروریاتِ انسانیہ کے محور پر گھوم رہی ہیں۔ دنیا انسانیت کا یہ عظیم الشان ہوا، وہاں حیوانیت اور مہیمیت کے گڈھوں میں جا گرے۔
ضرورتِ نبوت
اس میں شک نہیں کہ انسان میں جسمانیت، حیوانیت اور ملکیت سب کچھ موجود ہے۔ جسم کے متعلقات و مناسبات جسمانیت کے لیے ضروری ہیں، جیسے زمانہ و مکان، تشکل و تناہی، ہیئت، عمارات وغیرہ، اور حیوانیت کے لوازمات و ملحقات حیوانیت کے لیے لازم ہیں، جیسے کھانا پینا اور اس کے متعلقات۔ اسی طرح ملکیت کے مضمرات و متعلقات کا ملکیت کے لیے ہونا ضروری ہے، جیسے تسبیح و تحمید۔ لیکن جس طرح جسمانیت، حیوانیت و ملکیت تینوں انسان کے ارد گرد گھومتی ہیں، اسی طرح ان کی ضروریات و مناسبات بھی ضروریاتِ انسانیہ کے آس پاس گردش کرتی ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ انسان کل کائنات کے حقائقِ لطیفہ کا مجموعہ ہے، اور سب مخلوقات انسان کی خادم اور انسان سب کا مخدوم ہے۔ لہٰذا کل مخلوق انسان کی ضروریات کی خادم اور انسانی ضروریات سب کی مخدوم ہیں۔ گویا کل کائنات کی ضروریات، ضروریات کے محور پر گھوم رہی ہیں۔ دنیا انسانیت کا عظیم الشان نظام دامنِ نبوت سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن افرادِ انسانی کا رابطہ بارگاہِ نبوت سے قائم نہیں ہوا، وہ حیوانیت اور مہیمیت کے گڈھوں میں جا گرے۔
ضرورتِ نبوت پر پہلی دلیل
مقصودِ تخلیق کے حصول کا موقوف علیہ ہمیشہ ضروری ہوا کرتا ہے۔ انسان معرفتِ الٰہیہ کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اور خدمت کی معرفت کا حامل ہونا نبوت و رسالت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے نبوت و رسالت کا وجود انسان کے لیے ضروری ہے۔ منکرینِ نبوت کا یہ کہنا علم و عقل کی روشنی میں قطعی باطل ہے کہ ’’جب انسان کے پاس حواس اور عقل دونوں موجود ہیں تو اسے نبوت و رسالت کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لیے نہ یہ حواس کافی ہیں، نہ عقل۔ جن لوگوں نے خدا کی معرفت کے لیے حواس کو کافی سمجھا، وہ محسوسات و مظاہرِ کائنات کی پرستش میں مبتلا ہو گئے، اور جنہوں نے عقل پر اعتماد کیا، ان میں اکثر لوگ خدا کے منکر ہو گئے۔ جو صریح انکار کی جرأت نہ کر سکے، انہوں نے ذات و صفات میں ایسی ٹھوکریں کھائیں کہ معرفت کی راہوں سے بہت دور جا پڑے، اور عقلِ ناتمام کی وادیوں میں بھٹک کر ظنون و اوہام کے گڈھوں میں جا گرے۔
قرآنِ کریم نے ایسے ہی لوگوں کے لیے ارشاد فرمایا ہے:
إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (سورۂ یونس، آیت: 36)
رہا یہ امر کہ خدا ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو اس کی معرفت ضروری ہے یا نہیں؟ تو یہ علیحدہ موضوع ہے۔ یہاں صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ مصنوع کا وجود صانع کے وجود کی دلیل ہے، اور مصنوع کی تخلیق کسی حکمت و مقصد کے بغیر نہیں ہوتی، اور کسی مصنوع کی حکمتِ تخلیق کا فوت ہو جانا اس مخلوق کے عبث ہونے کو مستلزم ہے۔ انسان کے اوصاف و خواص اس امر کی دلیل ہیں کہ وہ اپنے خالق کا مظہر ہے۔ اب اگر وہ اس حقیقت کو پہچاننے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی نہ پہچانے تو اس نے خود اپنے وجود کو عبث قرار دیا، اور اگر پہچانے تو چونکہ وہ ذاتِ باری تعالیٰ کا مظہر ہے، لہٰذا اپنے آپ کو صحیح معنی میں پہچاننا دراصل اپنے خالق کو پہچاننا ہے۔ جیسا کہ مشہور ہے:
’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ‘‘
لہٰذا ثابت ہو گیا کہ معرفتِ خداوندی کے بغیر انسان کا وجود عبث ہے، اور اگر انسان چاہتا ہے کہ میرا وجود عبث نہ ہو، تو معرفتِ الٰہیہ کے بغیر اس کے لیے کوئی چارہ کار نہیں۔
ضرورتِ نبوت پر دوسری دلیل
قانونِ فطرت یہ ہے کہ نوع کے مدرکات کو معلوم کرنے کے لیے اسی نوع کا ادراک عطا کیا گیا ہے۔ مثلاً مبصرات کو جاننے کے لیے ادراکِ بصری، اور مسموعات کے لیے ادراکِ سمعی۔ علیٰ ہٰذا القیاس پانچوں حواس کو لیجیے، ہر نوعِ محسوس کے لیے اسی نوع کا حاسہ ہمارے اندر پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد معقولات کا وجود ہے، جنہیں معلوم کرنے کے لیے عقل عطا فرمائی گئی۔ ادراکِ انسان کی تگ و دو حواس و عقل سے آگے نہ تھی، مگر اس کی ضروریات کا تعلق ان دونوں سے آگے تھا، جسے عالمِ غیب کہا جاتا ہے۔ جب تک اس عالم تک کسی کی رسائی نہ ہو، اس مقام کے ساتھ متعلق انسانی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں۔ نبوت، جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، ’’اطلاع علی الغیب‘‘ ہی کا نام ہے۔ لہٰذا انسانی ضرورتوں کے پورا ہونے کے لیے نبوت کا ہونا ضروری ہے۔
ضرورتِ نبوت پر تیسری دلیل
حاسہ سببِ ادراک ہے، اور اس سے غلطی بھی واقع ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس کے ازالے کے لیے عقل کا اس پر حاکم ہونا ضروری تھا۔ مگر جب عقل بھی ٹھوکر کھائے تو اس کا ازالہ نہ عقل کر سکتی ہے، نہ حواس؛ کیونکہ حواس اس عقل کے محکوم ہیں، اور عقل بحیثیتِ عقل ہونے کے مساوی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ عقل پر ایسی چیز کو حاکم تسلیم کیا جائے جو غلطی سے پاک ہو، اور وہ نبوت ہے، کیونکہ نبوت ہی غلطی سے مبرا ہے۔ لہٰذا اختلافِ عقل کی مضرتوں سے بچانے کے لیے ’’نبوت‘‘ کو ضروری ماننا ہوگا۔ نبوت کا غلطی سے پاک ہونا ہی عصمتِ نبوت کا مفہوم ہے۔ معلوم ہوا کہ ’’عصمت‘‘ لوازمِ نبوت سے ہے۔ اس مقام پر زلّاتِ انبیاء علیہم السلام سے وہم پیدا کرنا درست نہیں۔
(جاری۔۔۔۔)
