دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

حضورِ اکرم ﷺ کا شمائل وخصائل (قسطِ 2)

عنوان: حضورِ انور ﷺ کے شمائل وخصائل (قسط 2)
تحریر: محمد فرقان رضا حنفی
پیش کش: جامعہ عربیہ انوارالقرآن، بلرام پور


(1500 سالہ جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کی خصوصی پیشکش)

قدِ مبارک: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نہ بہت زیادہ لمبے تھے، نہ پستہ قد۔ بلکہ آپ درمیانی قد والے تھے اور آپ کا مقدّس بدن انتہائی خوب صورت تھا۔ جب چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہو کر چلتے تھے۔ (سیرتِ مصطفٰے ﷺ ص: 391)

حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فرماتے ہیں: لٙیْسٙ بِاالذّٙھٙبِ طُوْلاٙٙ وٙفٙوْقٙ الرّٙبْعٙةِ اِذٙا جٙاءٙ مٙعٙ الْقٙوْمِ غٙمٙرٙھُمْ یعنی آپ بہت زیادہ دراز قد نہ تھے۔ لیکن مائل بطول ہونے کے اعتبار سے ربعہ سے ،، بلند ،، تھے ۔ جب آپ کسی قوم میں تشریف لاتے تو انہیں چھپا لیتے اور ان کے پست وکوتاہ قد لوگ آپ کے قریب چھپ جاتے۔ (مدارج النبوّة ج، 1 ص: 37)

اِس پر صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا اتفاق ہے کہ آپ میانہ قد تھے۔ لیکن یہ آپ کی معجزانہ شان ہے کہ میانہ قد ہونے کے باوجود اگر آپ ہزاروں انسانوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تھے تو آپ کا سرِ مبارک سب سے زیادہ اونچا نظر آتا تھا۔ (سیرتِ مصطفٰے ﷺ ص: 391)

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

قدِ بے سایہ کے سایۂ مرحمت
ظلِّ ممدوذِ رافت پہ لاکھوں سلام
طائرانِ قُدس جس کی ہیں قُمریاں
اُس سہی سرو قامت پہ لاکھوں سلام

اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ جب حضور ﷺ تنہا ہوتے تو رٙبْعہ یعنی متوسط القامت معلوم ہوتے اور جب قوم کے درمیان ہوتے تو سب سے بلند وبالا نظر آ تے اور جب ان کے درمیان سے جُدا ہوتے تو پھر منسوب بہ متوسط القامت رٙبْعہ ہوتے نیز مجلس میں آپ کے دونوں شانے مبارک بلند سے بلند تر ہوتے۔ (مدارج النبوّة ص: 37)

سرِ اقدس: حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کا حلیۂ مبارکہ بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ،،ضخم الراس،، یعنی آپ کا سرِ اقدس ،، بڑا ،، تھا۔ جو شاندار اور وجیہہ ہونے کا نشان ہے۔ (سیرتِ مصطفٰے ﷺ ص: 392)

حضرت ابن ابی ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں مرقوم ہے کہ: کٙانٙ رٙسُوْلُ اللّٰہِ صٙلّٙی اللّٰہُ عٙلٙیْہِ وٙ آلِہِ وٙسٙلّٙمٙ عٙظِیْمُ الْھٙامٙةِ یعنی حضور ﷺ کا سرِ انور عظیم تھا۔ سر کی بزرگی، وفورِ عقل اور جودت فکر کی اس بنا پر دلیل ہے کہ سر جو ہر دماغ کا عامل ہوتا ہے یہاں پر سر کو عظیم کہنے سے کوتاہی اور اس کی چھوٹائی کی نفی کرنا مقصود ہے۔ ورنہ آپ کے تمام اعضاء شریفہ جوارح میں وجود اعتدال کی رعایت کی گئی ہے۔ (مدارج النبوّة ج، 1 ص: 26)

جس کے آ گے سرِ سرواں خم رہیں
اُس سرِ تاج رفعت پہ لاکھوں سلام

مقدس بال: حضور ﷺ کے موئے مبارک نہ گھونگھر دار تھے۔ نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔ آپ کے مقدس بال پہلے کانوں کی لٙو تک تھے، پھر شانوں تک خوبصورت گیسو لٹکتے رہتے تھے۔ مگت حجتہ الوداع کے موقع پر آپ نے اپنے بالوں کو اُتروا دیا۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے آپ کے مقدس بالوں کی ان تینوں صورتوں کو اپنے دو شعروں میں بہت ہی نفیس ولطیف انداز میں بیان فرمایا ہے کہ

گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تا دوش
تابنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو
آخری حج غمِ اُمّت میں پریشاں ہو کر
تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو

آپ اکثر بالوں میں تیل بھی ڈالتے تھے اور کبھی کبھی کنگھی بھی کرتے تھے۔ اور اخیر زمانے میں بیچ سر میں مانگ بھی نکالتے تھے۔ آپ کے مقدس بال آخر عمر تک سیاہ رہے۔ سر اور داڑھی شریف میں بیس بالوں سے زیادہ سفید نہیں ہوئے تھے۔

حضور اقدس ﷺ نے حجتہ الوداع میں جب اپنے مقدس بال اُتروائے تو وہ صحابۂ کرام میں بطور تبرّک تقسیم ہوئے۔ اور صحابۂ کرام نے نہایت ہی عقیدت کے ساتھ اس موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور اس کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ (سیرتِ مصطفٰے ﷺ ص: 392)

نبی گیسو ترشواتے صحابہ لیتے ہاتھوں میں
زمیں پہ کیسے گر پاتے میرے سرکار کے گیسو

اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور ﷺ بالوں کو ترشواتے تھے۔ مونڈواتے نہ تھے لیکن مونڈوانے کے بارے میں خود فرماتے ہیں کہ آپ حج وعمرہ کے دو موقعوں کے سِوا بال نہیں مونڈواتے تھے۔ حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ہے کہ جب حضورِ اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں رونق افروز ہوئے تو آپ کے بالوں کی چار لٹیں تھیں اور سر کے بالوں کا چھوڑنا سُنّت ہے۔

حضور ﷺ بالوں میں اکثر کنگھی کیا کرتے تھے۔ آپ جس کسی کے پرا گندہ اور ابتر بال دیکھتے تو کراہت سے فرماتے کہ تم میں سے کسی کو وہ نظر آ یا ہے یہ اشارہ شیطان کی طرف ہے۔ اسی طرح آپ بہت زیادہ بنے سنورے اور لمبے بالوں والوں سے بھی کراہت فرماتے تھے۔ اعتدال اور میانہ روی آپ کو بہت پسند تھی۔ (مدارجُ النُبوّة ج، 1 ص: 27)

حضرت بی بی اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان مقدّس بالوں کو ایک شیشی میں رکھ لیا تھا۔ جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی مرض ہوتا تو آپ اس شیشی کو پانی میں ڈبو کر دیتی تھیں اور اس پانی سے شفا حاصل ہوتی تھی۔ (سیرتِ مصطفٰے ﷺ ص: 392 )

گھوماتی اُمِّ سلمہ پانی میں موئے مبارک کو
شفا دیتے مریضوں کو میرے سرکار کے گیسو


وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا
لُکّۂ ابر رحمت پہ لاکھوں سلام

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں