عنوان: | منصبِ قضاء: ایک شرعی امانت، عدل کی قرآنی ترجمانی |
---|---|
تحریر: | محمد فیضان رضا خان |
پیش کش: | جامعہ مرکز الثقافۃ السنیہ، کیرلا |
اللہ تعالیٰ جب اپنے فضل سے کسی پر علم و حکمت کے دروازے کھول دے، «من یرد الله به خيرًا يفقهه في الدين» کا مصداق بنا کر شریعتِ مطہرہ کا عامل بنا دے، تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ جل وعلا کی ذات پر کامل وثوق اور حد درجے یقین رکھے؛ تاکہ اس کی عطا کردہ نعمتوں پر، حتی المقدور، شکر بجا لانے والوں میں شامل ہو جائے۔
منصبِ قضاء کا اصل مقصد معاشرے میں عدل کا قیام، ظلم کا خاتمہ، اور امن و انصاف کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔ اس لیے قاضی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذاتی خواہشات سے بلند ہو کر، خوفِ خدا کے ساتھ، حق و انصاف پر مبنی فیصلے کرے۔ منصبِ قضاء سے جو فیصلہ وہ کر رہا ہے، آیا وہ اس کے حق میں ہے یا نہیں، اسے جاہ و جلال کو بالائے طاق رکھنا چاہیے، اور شرعی فیصلوں کو نافذ کرنے میں کسی کے بھی حسب و نسب کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ اگر یہ منعم علیہ ان تمام چیزوں کو ملحوظ نہیں رکھتا، تو آخرت میں بڑا خاسر اور بارگاہِ ایزدی میں نادم و پشیمان ہوگا۔
جبکہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے، جو آپ نے اپنی لختِ جگر کو خاص کرتے ہوئے فرمایا تھا: حد کو قائم کرنے میں کوئی چیز مجھے مانع نہیں، حتی کہ اگر اس جرم کا ارتکاب میری اپنی ہی بیٹی سے کیوں نہ ہوتا، تب بھی میں اللہ کے حکم کو نافذ کرنے میں گریز نہیں کرتا۔
یہ وہ مقدس ذات ہے جو فرما دے تو اصل شریعت وہی ہو جائے۔ شرعی اصول کے مطابق دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے، لیکن مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خزیمہ کی گواہی کو دو کے قائم مقام کر دیا۔ مرد کے لیے سونا استعمال کرنا حرام ہے، لیکن میرے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سراقہ بن مالک کے لیے کسریٰ کے کنگن پہننا حلال کر دیا۔ اور بھی بہت سی اشیاء ہیں جن کا اصل شرع میں حکم کچھ اور ہے، لیکن شارع نے کسی خاص موقع پر کسی خاص شخص کے لیے اس کو خاص کر دیا۔
اس لیے جو منصبِ قضاء پر ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ خالص اللہ سے ڈریں، نہ کہ دنیاوی جاہ و جلال اور حسب و نسب والوں سے۔ اور یہ صفت ہمارے اسلاف میں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔
اس کی تصدیق اس واقعے سے ملتی ہے: ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید، جو کہ اپنے وقت کے بادشاہ اور ہاشمی النسب والے تھے، انہوں نے قاضی القضات امام ابو یوسف، شاگردِ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہما اللہ، سے کہا: أتدري مع من حضرت؟ (تمہیں معلوم ہے کہ تم کس کے ساتھ ہو؟) اس سے ان کی مراد اپنے منصبِ خلافت پر فخر کرنا تھا۔ امام ابو یوسف نے برجستہ جواب دیا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کس کے ساتھ بیٹھے ہیں؟ ہارون رشید نے جواب دیا "ہاں، ابو یوسف کے ساتھ۔ تو امام ابو یوسف نے فرمایا: اگر آپ کو اپنے نسب پر فخر ہے کہ آپ ہاشمی ہیں، تو ہزاروں لوگ آپ کی طرح ہاشمی النسب موجود ہیں، اور میں دنیا میں اپنے وقت کا تنہا فرد ہوں۔ اس جواب کو سن کر ہارون رشید بھی حسرت کرنے لگے کہ کاش میں خلیفہ نہ ہو کر ایک قاضی ہوتا اور علم کی دولت میرے پاس ہوتی۔
محض یہ ایک واقعہ ان تمام لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہے جو کسی نہ کسی منصب پر فائز ہیں اور جنہیں منصف و فیصل بنایا گیا ہے، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان پھیلی ہوئی بدامنی کو اپنے عادلانہ احکام سے ختم کریں۔ لیکن موجودہ زمانے میں منصفانہ فیصلوں کا بڑا فقدان ہے، جس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ قاضی و منصف حضرات اثر و رسوخ رکھنے والے، دنیوی شان و عظمت کے حاملین، اور بڑے حسب و نسب کے لوگوں سے پذیرائی حاصل کرتے ہیں، اور ان کی خواہشات کے مطابق احکام صادر فرماتے ہیں۔
یہ ہمارے دور کا ایک بڑا المیہ ہے، جس کے سبب مظلوم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور ظالم اپنے مظالم کے باعث روز بروز صاحبِ اقتدار بنتا جا رہا ہے، جس میں کلیدی کردار قاضی حضرات کا ہے۔ وہ حضرات ان لوگوں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور اپنے غیر عادلانہ فیصلوں سے لوگوں کی امیدوں کا خون کرتے ہیں۔
عدل کو نافذ کرنا شریعتِ محمدی کا ایک اہم حصہ ہے، جس کے متعلق قرآن و حدیث میں اس کو نافذ کرنے پر زبردست تاکید آئی ہے، ساتھ ہی اس کو ترک کرنے والے کے لیے بڑی وعیدیں بھی آئی ہیں۔ ذیل میں چند آیاتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ پیش کی جا رہی ہیں، جن سے عدل کی اہمیت و افادیت اور عدل نہ کرنے والوں کے لیے انجامِ بد سے آگاہ کیا گیا ہے۔
قرآن و حدیث سے عدل کرنے والوں کے لیے بشارت
(1) ﴿إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ﴾ [النحل: 90]
ترجمہ: اللہ انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔
یعنی جس نے عدل قائم کیا، گویا اس نے اللہ کے حکم پر عمل کیا، اور اس کا یہ عمل اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے۔
(2) ﴿إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾ [المائدة: 42]
ترجمہ: اللہ انصاف قائم کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
(3) ﴿وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللّٰهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ [الفتح: 10]
ترجمہ: اور جو شخص اللہ سے کیے گئے عہد کو پورا کرے گا، تو اللہ اسے بڑا انعام دے گا۔
احادیث سے عدل کرنے والوں کی فضیلت
(1) «إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِندَ اللّٰهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ» [صحیح مسلم: 1827]
ترجمہ: انصاف کرنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے، جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل و عیال میں، اور اپنے ماتحتوں میں عدل کرتے ہیں۔
(2) «سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللّٰهُ فِي ظِلِّهِ... وَإِمَامٌ عَادِلٌ» [بخاری و مسلم: 1031]
ترجمہ: سات لوگ جنہیں اللہ قیامت کے دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا ان میں پہلا ہے: عادل حکمران۔
قرآن سے عدل نہ کرنے پر وعید
(1) ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰهُ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾ [المائدة: 44]
(2) ﴿فَأُولٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ [المائدة: 45]
(3) ﴿فَأُولٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ [المائدة: 47]
مفسرین کے نزدیک یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ جو شخص عدل کو چھوڑ دے، وہ کبھی کبھار فاسق، کبھی کبھار ظالم، اور بعض حالات میں کافر ہو سکتا ہے۔
عدل نہ کرنے پر احادیث کی وعید
(1) «إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ» [بخاری]
ترجمہ: جب امور (حکومت و قضا) نااہل لوگوں کو سونپ دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔
(2) «اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ» [مسلم: 1828]
ترجمہ: اے اللہ! جو شخص میری امت کا کوئی معاملہ سنبھالے اور ان پر سختی کرے، تو تُو بھی اس پر سختی کر۔
اسلاف کا طرزِ عمل
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جب بھی اس منصب کی طرف بلایا گیا، آپ نے ہمیشہ کسی نہ کسی عذر سے اپنے دامن کو اس ذمہ داری سے بچایا۔ آپ فرمایا کرتے: یہ امراء و حکام اپنی خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کرتے ہیں اور اسی کے مطابق فتویٰ چاہتے ہیں، جو میں نہیں کر سکتا، کیونکہ عدل سے فیصلہ نہ کرنے کی بنا پر بروزِ قیامت مجھے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خائب و خاسر ہونا پڑے گا، جس کی میں تاب نہیں لا سکتا۔
رہی بات قاضی القضاۃ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی تو انہوں نے یہ منصب بطیبِ خاطر نہیں بلکہ ناچار کار قبول فرمایا، لیکن آپ حق کے ساتھ فیصلہ فرمانے میں کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عادل بنائے، آمین ثم آمین۔